کہانیوں کے سفر میں ایک اور کہانی پیش خدمت ہے صدیوں پرانی بات ہے بغداد کے شہر میں ایک نوجوان ہوا کرتا تھا جو ہر وقت اپنی گھوڑی پر سوار ہوتا اور اپنی گھوڑی پر شدید ظلم کرتا اسے کھانے کے لیے پینے کے لیے ہر وقت اس پر سوار رہتا اور اس پر ہر طرح ظلم کرتا ایک دن وہ بغداد کے شہر میں داخل ہوا تو سپاہیوں نے اسے دیکھ لیا اور جا کر پکڑ لیا اور پوچھا اے نوجوان تم اس گھوڑی پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو تمہیں پتا ہے ہمارے بادشاہ اس بات کو شدید ناپسند کرتے ہیں اگر بادشاہ کو علم ہوا تو وہ تجھے کڑی سزا دیں گے کافی بحث کے بعد جب نوجوان باز نہ آیا تو سپاہیوں نے نوجوان کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا تمام وزیر اور مشیر بادشاہ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے سپاہیوں نے کو بادشاہ کے سامنے پیش کر کے عرض کیا بادشاہ سلامت ہم کئی دن سے اس نوجوان کو دیکھ رہے ہیں یہ اپنی گھوڑی پر شدید قسم کا ظلم کرتا ہے نہ اسے کھانے کے لیے دیتا ہے نہ پینے کے لیے ہر وقت اس پر سوار رہتا ہے اور ہر وقت اس کو مارتا پیٹتا ہے اور ساتھ میں یہ کہتا جاتا ہے کہ بد نصیب اپنی بد اعمالیوں کی سزا دیکھ لے خلیفہ نے وزیر سے کہا کہ اسے زیادتیوں کی وجہ دریافت کی جائے وزیر نے اس نوجوان کو اشارے سے ٹھہرایا اور بتایا کہ کل تمہیں خلیفہ نے دربار میں طلب کیا ہے اگر تعمیر حکم سے گریز کیا تو نتیجے کے دار تم خود ہو گے نوجوان نے بادشاہ سے کہنا شروع کیا اے بادشاہ سلامت میرا نام لقمان ہے اور میں کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا ہوں میرے والد کا بڑا کاروبار تھا اپنی حیثیت اور ہمت کے مطابق انہوں نے میری تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کر دیا تھا جب میں تعلیم سے فارغ ہوا تو والد میری شادی کر رہے تھے وبائی بیماری میں میری والدہ اور والد انتقال فرما گئے اور میں گھر میں تنہا رہ گیا کچھ روز تک مجھے بڑی وحشت رہی لیکن آخر کار صبر آ گیا اور میں اپنے کاروبار کی طرف متوجہ ہوا سال ڈیڑھ کے بعد اپنی تنہائی اور خالی پن کا احساس ہوا اس میں اتنی شدت ہوئی کہ مجبورا میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ملنے جلنے والوں کے ذریعے رشتے کی کوشش کرتا رہا اور خود بھی تلاش میں لگا رہا انہی ایام میں شہر بغداد میں ایک کنبہ کہیں باہر سے آ کر آباد ہو گیا ان میں ایک نہایت حسین لڑکی تھی جو مجھے پسند آئی
میں نے پیغام بھیج دیا دو چار پھیروں کے بعد میرا اس سے نکاح ہو گیا میں خوش کہ امید سے بڑھ کر خوبرو اور حسین عورت مل گئی شروع شروع میں تو میں نے کچھ محسوس نہ کیا لیکن چند روز بعد مجھے معلوم ہوا کہ میری بیوی کھاتی نہیں صرف کھانے کا ناٹک کرتی ہے میں غور کر کے دیکھتا رہا کہ دن بھر کی غذا اتنی ہوگی جتنی چار سال کا بچہ ایک وقت میں کھا لیتا ہے مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا اس کی وجہ دریافت کرنی چاہیے میں کئی روز سے اسی خیال اور فکر میں تھا کہ ایک دن سوتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میری بیوی اٹھ کر باہر جا رہی ہے میں نے اس کے نکلنے کا انتظار کیا جوں ہی وہ کپڑے پہن کر گھر سے نکلی میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہو گیا یہاں تک کہ ہم دونوں آگے پیچھے قبرستان آن پہنچے میں حیران تھا کہ رات میں تنہا یہاں کیا کرنے آئی ہے بہرحال تمام حالات دیکھنے کے لیے میں ایک بڑے درخت کی آڑ میں چھپ کر کھڑا ہو گیا اور میری بیوی آمین آگے چلتی رہی تھوڑے فاصلے پر ہلکی سی روشنی ہو رہی تھی اور وہاں ایک آدمی بیٹھا تھا جس کو میں اپنے اندازے کے مطابق بدروح سمجھا آمین اس پاس جا کر بیٹھ گئی اور دونوں آپس میں کچھ گفتگو کرنے لگے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں ان کی گفتگو نہیں سن سکا لیکن نظر سب کچھ آ رہا تھا تھوڑی دیر میں آمین اس جو ہے کل کی گود میں جا بیٹھی اس وقت میری جو حالت ہوئی آپ اندازہ فرما سکتے ہیں قریب تھا کہ میں اپنی طاقت ضبط کھو بیٹھوں لیکن میں نے بڑی مشکل سے ضبط کیا اور سارے واقعات دیکھنے کے لیے تیار ہو گیا اب شروع کچھ دیر تک آمین کو چھاتی لگا کر پیار کرتا اس وقت اس کا نازک اور لطیف جسم اس کے گندے پہلو میں ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا سفید دھلا ہوا کپڑا کیچڑ میں ڈال دیا گیا ہو بہرحال اختلاف کی مکروہ کیفیت کچھ دیر جاری رہی اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ اس کو ناز و انداز دکھا رہی ہے تھوڑی دیر تک یہ تماشہ ہوتا رہا اس وقت مجھے محسوس ہوا شاید میری بیوی انسانی نسل کے بجائے خود روح کی کوئی نسل ہے کچھ دیر بعد حبشی اٹھا اور آمین لیٹی رہی اس عرصے میں مرد نے ایک تازہ قبر کھود کر مردہ نکال لیا۔ اور آمین کے قریب لا کر رکھ دیا وہ ہنستی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ اور دونوں نے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیا۔ یہ روح ورسا منظر دیکھ کر عام حالات میں میں شاید بے ہوش ہو جاتا۔ لیکن اسے ذرا پہلے والے واقعات نے میرے اندر اتنا جوش و خضب پیدا کر دیا تھا کہ میں اس منظر کو بخوبی برداشت کر سکا۔ جب یہ دونوں مردے کے جسم کا سب گوشت کھا چکے تو اس کی ہڈیوں کو واپس میں رکھ دیا اور میں نے اندازے سے سمجھ لیا کہ اب یہ دونوں یہاں سے چلنے والے تھے اس لیے میں وہاں سے ہٹ کر تیزی سے گھر چلا آیا اور اپنے پلنگ پر لیٹ کر ایسا بن گیا گویا اٹھا ہی نہیں تھا تھوڑی دیر بعد میری بیوی پلنگ پر واپس آ گئی اور غالبا اظہار محبت کے لیے میرے پاس لیٹ گئی اس وقت مجھے اتنی کراہت کا احساس ہوا جی چاہتا تھا کہ اس کو دھکا دے دوں لیکن میں نے معاملے کو صبح پہ ملتوی کر دیا کہ اچھی طرح غور کر فیصلہ کروں گا
صبح کو اٹھ کر غسل کیا اور اپنی دکان پر چلا آیا اور برابر اس مسئلے کے متعلق سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اگر خاموش ہوتا ہوں تو اپنی بے عزتی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اگر قتل کرتا ہوں تو گرفتاری اور قصاص کا خوف ہوتا ہے اسی الجھن میں دوپہر ہو گئی اور میں گھر واپس چلا آیا مجھے دیکھ کر اس نے دسترخوان بچھوایا اور کھانے چون دیے جب میں کھانے کے لیے بیٹھا تو معمول کے مطابق طور نمائش وہ شریک ہو گئی لیکن کھانے کا یہ انداز ایک ایک دانہ منہ میں ڈالتی تھی اصل حالات آنکھوں سے دیکھ چکنے کے بعد اب مجھے ان حرکات پر غصہ آیا اور میں نے اس سے کہہ دیا کہ جان من اگر تمہیں یہ چیزیں نا پسند ہیں تو اپنی مرضی کا کھانا پکایا کرو آخر مردے کے گوشت سے اچھی تو چیز ہوتی ہوگی یہ سنتے ہی وہ سمجھ گئی کہ میں رات سے واقف ہو گیا ہوں اس نے دسترخوان پر رکھا ہوا پانی کا برتن اٹھایا اور یہ کہہ کر مجھ پر پھینک دیا کمبخت کتا بانجھا اسی وقت میری ہیبت بدل گئی اور میں کتے کی شکل میں تبدیل ہو گیا پھر اس نے ایک لکڑی اٹھایا اور مجھے اتنا مارا کہ جا بجا خون بہنے لگا وہ مشکل دماغ میں گھر سے نکل کر بھاگا تو محلے کے کتوں نے اجنبی سمجھ کر میرا پیچھا کیا وہاں بھی نہ ٹھہر سکا مجبورا قصاب کی دکان میں گھس کر اس کی چوکی کے نیچے بیٹھ گیا قصاب نے رحم کھا کر کتوں کو بھگا دیا میں کافی دیر تک وہیں پڑا اپنی حالت کے متعلق غور کرتا رہا اور ہر طرف کا تاریک سایہ چھایا ہوا تھا بہت دیر کے بعد میں وہاں سے نکلا تو قصاب نے ایک گوشت کا ٹکڑا میرے آگے ڈال دیا میں دم ہلاتا ہوا اس کے قریب آگیا نہیں معلوم اس نے کیا سمجھا اور مجھے ایک لکڑی بڑے زور سے مار دی میں وہاں سے بھاگا اور ایک نان بھائی کی دکان میں پناہ لی شام تک جب میں وہیں پڑا رہا تو اس نے روٹی کا ٹکڑا میرے آگے ڈال دیا جسے میں نے کھا لیا اور پھر میں وہیں بیٹھ گیا اسی طرح کئی روز گزر گئے اور نان بھائی دوسرے لوگ کچھ میرے آگے ڈال دیتے اور میں اس کو کھا کر پانی پی لیتا.
ایک روز ایک عورت روٹی لینے آئی اور جو درہم اس نے نان بھائی کو دیے ان میں ایک کھوٹا تھا. جب عورت جانے لگی تو میں نے اس کا دامن پکڑ لیا. اس نے ہر چند شور مچایا لیکن میں نے نہیں چھوڑا. نان بھائی خود اٹھا اور مجھے الگ کیا. میں نے آگے بڑھ کر کھوٹے درہم پر پھیر رکھ دیا. اور اشارے سے نان بھائی کو دکھا دیا.
اب نان بھائی نے غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ باقی درہم کھوٹا ہے. اس وہ درہم تو عورت کو واپس کر دیا کہ اس کو بدلو لیکن وہ میری سمجھ کو دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے بہت سے آدمیوں سے اس کا ذکر کیا اور اس کو یقین نہ آیا چنانچہ بطور امتحان میرے سامنے کھرے اور کھوٹے درہم ملا کر ڈالے گئے اب تو میری ہر جگہ شہرت ہو گئی کہ فلاں نان بھائی کے پاس ایک ایسا کتا ہے جو کھوٹے کھرے درہم پہچان لیتا ہے لوگ خواہ مخواہ مجھے دیکھنے آتے ہیں اور امتحان لیتے اس طرح نان بھائی کی بکری پڑ گئی اور نان بھائی میری خاطر کرنے لگا ایک روز ایک عمر رسیدہ عورت روٹی لینے آئی اور اس نے چند خراب درہم ملا کر نان الوداع کو دیے اس نے پرکھنے کو میرے آگے ڈال دیے میں نے کھوٹے سکے الگ کر دیے عورت نے نان الوداع کو تو چھ درہم دے دیے لیکن جب چلنے لگی تو مجھے اشارے سے اپنے ساتھ آنے کو کہا میں اس خیال سے اس کے پیچھے ہو لیا کہ شاید اسی کی بدولت میں اس مصیبت سے چھوٹ جاؤں نان الوداع نے اس لیے روکنے کی کوشش نہ کی کہ وہ جانتا تھا کہ میں کہیں نہیں جاؤں گا ادھر گھوم کر پھر اسی دکان پر لوٹ آؤں گا جیسا کہ میں اکثر کرتا رہتا تھا میں اس عورت کے ساتھ ایک مکان میں گیا وہاں ایک نوجوان اور بے حد خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی بڑھیا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا بیٹی یہی وہ کتا ہے جو کھوٹے اور کھرے درہم کی شناخت کرتا ہے اس نے پہلے غور سے میری طرف دیکھا پھر کہنے لگی ابھی اصل راز ظاہر ہو جاتا ہے تو مجھے ذرا سا پانی دو بڑھیا نے ایک گلاس میں پانی لا کر اس کے سامنے رکھا پھر جوان عورت نے اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا۔ اور یہ کہہ کر مجھ پر پھینک دیا کہ اپنی اصلی صورت میں لوٹاؤ۔ پانی پردہ ہی میں اصلی شکل میں آگیا اور دوڑ کر اس کے قدموں میں گر پڑا اس نے مجھے اٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ واقعہ کس طرح پیش آیا۔ میں نے اپنی محسنہ کو ساری داستان اول سے آخر تک سنائی وہ دیر تک افسوس کرتی رہی۔ پھر بولی کہ تمہاری اس بدکردار عورت کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے کچھ پانی پر پڑھ کر دیا اور کہا اسے لے جاؤ اور اپنی بیوی پر ڈال کر جس جانور کا نام لو گے اس کی شکل ویسی بن جائے گی میں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور پانی لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا خوش قسمتی سے جب گھر پہنچا تو میری بیوی امین کسی کام میں مصروف تھی اس نے مجھے نہیں دیکھا اور میں نے آہستگی سے پیچھے سے اس پر پانی پھینکا اور حکم دیا کہ گھوڑی بن جا وہ فورا گھوڑی کی شکل میں منتقل ہو گئی اس کے بعد میں نے اسے اتنا مارا کہ میرے ہاتھ درد کر پھر اس کو اسطبل میں باندھ لیا کل حضور نے جب مجھے جس گھڑی پر سوار اس کو پیٹتے ہوئے دیکھا یہ وہی ظالم گھوڑی ہے اب میں اس کو روزانہ سزا دیتا ہوں کہ اسے احساس ہو کہ جو بد اعمالیہ وہ کرتی رہی ہے وہ خود اس پر گزرے تو معلوم ہو یہ تکلیف کیا ہوتی ہے امید ہے کہ آپ میری مصیبت کے پیش نظر میرے خیال فعل کو درست فرمائیں گے لقمان اپنا قصہ سنا کر ادب سے ایک طرف کھڑا ہو گیا بے شک تمہاری مصیبت درد ناک ہے لیکن تم اس کو اصلی صورت میں نہیں لا سکتے ممکن ہے اس کی اصلاح ہو گئی ہو نوجوان نے عرض کیا حضور کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس بدبخت نے میرے ساتھ برائی کی تو کیا کروں گا خلیفہ نے نوجوان کی بات سن کر کہا بے شک ظلم کا بدلہ ظلم ہوتا ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے خدا حافظ اللہ پاک سب کا حافظ و نگہبان
Leave a Comment