اﷲ رب العزت کی قدرت و حکمت کی نشانیاں

سورج فضا میں ایک مقررہ راستے پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل بھاگا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان نو سیارے ستائیس چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے جا رہا ہے کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا غلطی سے کوئی ادھر ادھر ہو جائے سب اپنی اپنی راہ پر اپنے اپنے program کے مطابق نہایت تابعداری سے چلے جا رہے ہیں ابھی اگر یہ کہے کہ چلتے ہیں لیکن چلانے والا کوئی نہیں ڈیزائن ہے لیکن ڈیزائنر نہیں قانون ہے لیکن قانون کو نافذ کرنے والا کوئی نہیں لیکن کنٹرول نہیں بس یہ سب ایک حادثہ ہے اسے آپ کیا کہیں گے چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دور زمین پر سمندروں کے اوپر کھربوں ٹن پانیوں کو ہر روز دو دفعہ مدوجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا بندوبست ہو پانی صاف ہوتا رہے اس میں تعفن پیدا نہ ہو ساحلی علاقوں کی صفائی ہوتی رہے اور غلاظتیں بہہ کر گہرے پانیوں میں چلی جاتی رہیں یہی نہیں بلکہ سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھڑا ہے پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ کم نمکین بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں تاکہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد کی لاشوں سے بو نہ پھیلے انہی میں کھارے اور میٹھے پانی کی نہریں بھی ساتھ ساتھ بہتی ہیں سطح زمین کے نیچے میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھارے پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں سب کے درمیان ایک غائب پردہ ہے تاکہ میٹھا پانی میٹھا رہے اور کھارا پانی کھارا اس حیران کن انتظام کے پیچھے کون سی عقل ہے اس توازن کو کون برقرار رکھے ہوئے ہے کیا پانی کی اپنی سوچ تھی یا چاند کا اپنا کوئی فیصلہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب جدید سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا عرب کے صحرا زدہ ملک میں جہاں کوئی سکول اور کالج نہیں تھا ایک عظیم ہستی اٹھ کے سورج اور چاند کے بارے میں کہتی ہے یہ سب ایک حساب کے پابند ہیں وہ شمسو ولقمروب حسبان سمندروں کے پانیوں کے گہرائی کے متعلق بتایا کہ ان کے درمیان ایک barrier ہے جو قابو میں رکھے ہوئے ہیں جب ستار کو اپنی جگہ لٹکے ہوئے چراغ کہا جاتا تھا وہ کہتا ہے یعنی سب کے سب اپنی مدار پر تیر رہے ہیں جب سورج کو ساکن تصور کیا جاتا تھا وہ کہتے ہیں یعنی سورج اپنے لیے مقرر شدہ راستے پر کسی انجانی منزل کی طرف ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے جب کائنات کو ایک جامعت آسمان کو چھت کہا جاتا تھا وہ کہتے ہیں یہ پھیل رہی ہے وہ نباتات اور حیوانی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان سب کی بنیاد پانی ہے البرٹ آئن سٹائن دریافت قوانین قدرت اٹل ہیں پر جدید سائنس کا بانی کہلاتا ہے تم رحمان کی تخلیق میں کسی جگہ فرق نہیں پاؤ گے جدید سائنس کی ان قابل فخر دریافتوں پر ساڑھے چودہ سو سال پہلے پردہ اٹھانے والا کسی یونیورسٹی سے پڑھا تھا کیا کسی لیبارٹری میں کام کرتا تھا نومولود بچے کو کون سمجھاتا ہے کہ بھوک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائے ماں کو حوصلہ دیتا ہے کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہو کر بچے کو بچائے ایک معمولی سی چڑیا شاہین سے مقابلے پر اتر آتی ہے یہ حوصلہ اسے کس نے دیا مرغی کے بچے انڈے سے نکلتے ہی چلنے لگتے ہیں ایوانات کے بچے بغیر سکھائے ماؤں کی طرف دودھ کے لیے لپکتے ہیں انہیں یہ سب کچھ کون سکھاتا ہے جانوروں کے دلوں میں کون محبت ڈالتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے منہ میں ڈالیں یہ زندگی انہوں نے کہاں سے سیکھے ہیں؟ شہد کی مکھیاں دور دراز باغوں میں ایک ایک پھل سے رس چوس چوس کر انتہائی ایمانداری سے لا کر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہیں۔ کہ کچھ پھل زہریلے ہیں ان کے پاس نہیں جاتی۔ ایک قابل انجینئر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے کا فن جانتی ہیں۔ جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہہ جانے سے بچانے کے لیے اپنے پروں سے پنکھا چلا کر ٹھنڈا کرتی ہیں موم سے ایسا گھر بناتی ہیں جسے دیکھ کر بڑے سے بڑے آرکیٹیک بھی ایران زدہ ہیں لاکھوں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہیں کہ کوئی مثال نہیں ہر ایک میں ایسا radar نظام موجود ہے کہ وہ دور نکل جاتی ہیں لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتی انہیں زندگی کے یہ طریقے کس نے سکھائے انہیں یہ عقل کس نے دی بکرا اپنے لعاب سے شکار پکڑنے کا ایسا جال بناتا ہے کہ جدید ٹیکسٹائل انجینئر بھی اس بناوٹ کا ایسا نفیس دھاگہ بنانے سے قاصر ہیں گھریلو چونٹیاں گرمیوں میں موسم سردہ کے لیے خوراک جمع کرتی ہیں اپنے بچوں کے لیے گھر بناتی ہیں ایک ایسی تنظیم سے رہتی ہیں جہاں management کے تمام اصول حیران کن حد تک کار فرما ہیں ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والی مچھلیاں اپنے انڈے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور گرم پانیوں میں دیتی ہیں لیکن ان نکلنے والے بچے جوان ہو کر ماں کے وطن خود بخود پہنچ جاتے ہیں نباتات کی زندگی کا سائیکل بھی کم حیران کن نہیں جراثیم اور بیکٹیریا کیسے کروڑوں سالوں سے اپنی بقا کو قائم رکھے ہوئے ہیں زندگی کے گر انہیں کس نے سکھائے social management کے یہ اصول انہیں کس نے سکھائے کیا زمین اس قدر عقل مند ہے کہ اس نے بھی خود بخود لے لو نہار کا نظام قائم کر لیا خود بخود ہی اپنے پر جھک گئی تاکہ سارا سال موسم بدلتے رہیں۔ کبھی بہار کبھی گرمی کبھی سردی اور کبھی خزاں تاکہ اس پر بسنے والوں کو ہر طرح کی سبزیاں پھل اور خوراک سارا سال ملتی رہے۔ زمین نے اپنے اندر شمالا جنوبا ایک طاقت پر مقناطیسی نظام بھی خود بخود قائم کر لیا۔ تاکہ اس کے اثر کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں۔ جو ہوا کی nitrogen کو nitrospox side میں تبدیل کر کے بارش کے ذریعے زمین پر پودوں کے لیے قدرتی کھاد مہیا کریں۔ سمندروں چلنے والے بحری جہاز آبدوز اور ہواؤں میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں آسمانوں سے آنے والی مہلک شعاعیں اس مقناطیسیت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمینی مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے اور زندگی جاری رہے زمین، سورج، ہواؤں، پہاڑوں اور میدانوں نے مل کر سمندر کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا ہے تاکہ کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں اربوں tons پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں ستاروں سے آنے والے ریڑیائی ذرے بادل میں موجود پانی کو اکٹھا کر کے قطروں کی شکل دیں اور پھر یہ پانی میٹھا بن کر خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لیے برسیں جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے تو یہ پہاڑوں پر برف کے ذخیرے کی صورت میں جمع ہو جاتا ہے گرمیوں میں جب زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندر تک پہنچ جاتا ہے ایک ایسا شاندار متوازن نظام جس کو سیراب کرتا ہے اور کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا یا یہ بھی ستاروں ہوا اور زمین کی اپنی باہمی سوچ تھی دل کا پمپ ہر منٹ ستر اسی دفعہ منظم باقاعدہ حرکت سے خون پمپ کرتا رہتا ہے ایک پچھتر سالہ زندگی میں بلا مرمت تقریبا تین ارب بار دھڑکتا ہے گردے کڈنی صفائی کی بے مثال اور عجیب فیکٹریز ہیں جو جانتے ہیں کہ خون میں جسم کے لیے جو مفید ہے وہ رکھ لینا ہے اور فضلات کو باہر پھینک دینا ہے معدہ حیران کن کیمیکل complex ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلا پروٹین carbohydrates وغیرہ کو علیحدہ کر کے خون کے حوالے کر دیتا ہے اور فضلات کو باہر نکال دیتا ہے انسانی جسم میں انجینئرنگ کی یہ شاہکار سائنس کے یہ بے مثال نمونے چھوٹے سے پیٹ لاجواب فیکٹریاں یا سب کچھ یوں ہی بن گئے دماغ کو کس نے بنایا مضبوط ہڈیوں کے خول میں بند پانی میں یہ ترتا ہوا عقل کا خزانہ معلومات کا store احکامات کا center انسان اور اس کے ماحول کے درمیان رابطے کا ذریعہ ایک ایسا کمپیوٹر کہ انسان اس کی بناوٹ اور design کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا لاکھ کوششوں کے باوجود انسانی ہاتھ اور ذہن کا بنایا ہوا کوئی super کمپیوٹر بھی اس کے عشر اشیر تک نہیں پہنچ سکتا اور کھربوں خلیات کا مجموعہ ہے اتنے چھوٹے کہ خوردبین کی مدد کے بغیر نہیں دیکھے جاتے لیکن سب کے سب جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے یوں انسان کا ہر خلیہ شعور رکھتا ہے اور اپنے وجود میں مکمل شخصیت ہے یہ نظام کیا خود بخود بن گیا نہیں نہیں اس سب نظام کو چلانے والی ایک طاقت ہے اس سب نظام کو چلانے والا ہمارا پروردگار اللہ تعالی ہے اور تم پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

Related Content

آرمی میوزیم لاہور نوکریاں 2025 میوزیم گائیڈ، فوٹوگرافر اور دیگر تازہ ترین لاہور، پنجاب، دی نیوز 19-جنوری-2025

کیڈٹ کالج پیٹرو نوکریاں 2025 لیکچررز اور ایڈمن آفیسر پیٹرو، جامشورو، سندھ، ڈان میں 19-جنوری-2025 کو تازہ ترین

آرڈیننس کالج ملیر کینٹ کراچی نوکریاں 2025 ڈیٹا انٹری آپریٹر، ریسرچ اسسٹنٹ اور یو ایس ایم کراچی، سندھ میں تازہ ترین، 19-جنوری-2025 کو دی نیوز

Leave a Comment