یہ نو اگست سال چودہ سو ترانوے کا دن تھا شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا کیربین سمندر میں ایک جہاز پانی کی سطح پر دھیمے دھیمے آگے بڑھ رہی تھی اس جہاز کا نام سینٹا ماریہ تھا جس پر تقریبا تیس لوگ موجود تھے جہاز کا کپتان کرسٹوفر کولمبس تھا جسے ہسپانیہ سے نکلے دو مہینے گزر چکے تھے اور دو مہینوں سے یہ جہاز سمندر کی لہروں پر کسی انجان سفر کی طرف رواں تھی کئی راتوں سے سویا نہیں تھا اور شدید پریشانی میں مبتلا تھا کیونکہ اسے کسی نئی زمین کی تلاش تھی یہ جہاز جب ڈومینسیئن ریپبلک کے قریب پہنچی تو دور چھوٹے چھوٹے ویران جزیرے دکھائی دیے۔ کولمبس ان کا جائزہ لینے کے لیے جہاز کے کنارے پر کھڑا ہوا اور انہیں بغور دیکھنے لگا۔ سمندر دور دور تک شان تھی۔ سرد ہواؤں سے جسم میں ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔ اور اس خاموش علاقے کی خاموشی کانوں میں ایک خوفناک دہشت پیدا کر رہی تھی۔ اچانک کولمبس کی نظریں سمندر میں تیرتی کسی چیز پر پڑی جو حرکت کر رہی تھی۔ اس نے غور سے دیکھا تو یہ اس کے سوچ کے برخلاف کوئی مچھلی نہیں بلکہ ایک عجیب و غریب مخلوق تھی۔ جس کا آدھا جسم انسان نما اور آدھا مچھلی کی طرح تھا۔ کولمبس نے بچپن سے ہی جل پریوں کے متعلق کہانیاں سن رکھی تھی۔ لہذا وہ فورا سمجھ گیا کہ یہ مرمیڈ ہے۔ یہ تعداد میں تین تھی۔ جو پانی کے سطح پر تیر رہی تھی۔ کولمبس نے حیران انہیں دیکھا اور اپنے ساتھیوں کو آواز دی لیکن جہاز کی لہروں کو سنتے ہی فورا یہ جلپریاں پانی میں کہیں غائب ہو گئیں کولمبس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ان داستانوں اور قصوں کو جسے وہ اب تک ایک افسانہ مانتا آیا تھا آج خود اس کی آنکھیں ان جل پریوں کے وجود کی گواہ بنی تھی جلپری نامی اس مخلوق کو پوری دنیا میں دیکھے جانے کے اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پراسرار مخلوق ہے جس کا آدھا جسم عورت نما اور آدھا مچھلی کا ہوتا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں چھپی یہ خوبصورت راز آخر حقیقت ہے یا محض افسانہ۔ ہماری دنیا اللہ تبارک و تعالی کی بنائی ہوئی ایسی تخلیق ہے جہاں زندگی مخصوص نظام کے تحت چلتی ہے یہاں زندگی پیدا ہوتی ہے پھلتی پھولتی ہے جاندار قدرت سے بہت کچھ لیتے اور دیتے ہیں اور پھر ایک دن ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتے ہیں زندگی کے اس نظام کے سلسلوں میں مختلف قسم کے مخلوق پیدا بھی ہوتے ہیں اور آگے چل کر معدوم اور ختم بھی ہوتے رہتے ہیں زمانہ قدیم میں ایسے بے شمار مخلوق تھے جن کا آج وجود نہیں ہے یہ یا تو سے بڑے جانداروں کے شکار ہو گئے یا قدرتی آفات اور تباہی نے ان کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دیا آج وہ عجیب و غریب مخلوق قصوں, کہانیوں, مائتھالوجی اور داستانوں کا حصہ ہیں.مختلف تہذیب, ثقافت اور کتابوں میں طرح طرح کے جانداروں کی بات کہی گئی ہے. جسے خدا نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا. آج سائنس ایسی کسی بھی جاندار کے ایگزسٹنس کو نہیں مانتی. لیکن دنیا کے ہر تہذیب اور مائیتھولوجی میں ایک جیسے مخلوق کا ذکر ملنا اور قدیم لوگوں کا ان جانداروں کے بارے میں لکھی گئی باتوں کو نظر انداز کر کے ان جانداروں کے وجود سے انکار کرنا ایک نا انصافی ہوگی. پر اسرار مخلوق میں ایک مخلوق جل پری ہے جل پری ایسی مخلوق ہے جس کے بارے میں سن کر انسان اس خیالی دنیا میں کھو جاتا ہے جہاں گہرے سمندر میں خوبصورت مچھلی نما عورت اپنی پونچھ کے سہارے رنگ برنگی مچھلیوں کے ساتھ تیر رہی ہوتی ہے جل پریاں ایک ایسی مخلوق ہیں جو تین ہزار سالوں سے انسانیت کے لیے ایک راز بنی ہوئی ہے انہیں یورپ میں مرمیٹ کہا جاتا ہے فرینچ کے یہ دو لفظ مر یعنی سمندر اور میڈ یعنی عورت سے مل کر بنا ہے یعنی سمندر میں رہنے والی ایسی مخلوق جس کا جسم تو عورت کا ہوتا ہے لیکن پیروں کی جگہ مچھلی کی طرح پونچھ ہوتی ہے جبکہ کئی لوگ کتھاؤں میں سمندری آدمیوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہیں مر مین کہا جاتا ہے جھل پریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر وہ کسی شخص پر مہربان ہو جائے تو سمندر کے تہہ میں موجود خزانوں کو لا کر وہ انسان کے قدموں میں رکھ دیتی ہے. کہا جاتا ہے کہ جھل پریوں کے پاس کچھ غیر معمولی طاقتیں ہوتی ہیں. جو کسی عام انسان یا حیوان میں بھی نہیں ہوتی. یہ مرمیڈ آنے والے طوفان اور زلزلوں کے بارے میں بھی پہلے سے جان لیتی ہیں. قدیم اساتیروں میں دو طرح کے جھل پریوں کے بارے میں بتایا گیا ہے ایک اچھی اور ایک بری جھلپریاں اچھی جھل پریاں لوگوں کی جان بچانے ان سے دوستی کرنے اور آنے والے مصیبتوں سے انسان کو آگاہ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہی بری جل پریاں لوگوں کی جان لینے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ تحقیق دانوں کے لیے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ سب سے پہلے جل پریوں کا تصور انسانی ذہن میں کہاں سے اور کیسے آیا تھا۔ قدیم بابل کے افسانوں میں ایک ہزار سال قبل is مسیح میں ایک سمندری مخلوق کا ذکر ہوا ہے۔ جسے بابلی لوگ ٹیموت کہا کرتے تھے۔ بابل کے کھنڈرات سے نکلنے والے قطبوں میں بھی لمبے دم والی مخلوق کی تصویر ملتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بابلی لوگ اسے سمندر کی دیوی مانتے تھے۔ اور اس کی پوجا کیا کرتے تھے۔ آئرلینڈ کے قدیم مقامی قبیلے یعنی آئرش لوگوں میں بھی لیبن نامی جھلپری کی کہانی مشہور تھی جسے وہ دیوتا کی بیٹی مانتے تھے۔ آئرس کے مقامی گرجا گھروں میں آج بھی اس کی تصویریں اور مصور موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ قدیم زمانے کا ایک ڈوبا ہوا شہر اٹلینٹس میں جل پریاں رہا کرتی تھیں. اور آج بھی اس تباہ شدہ شہر میں جل پریاں چھپی ہیں. اور اکثر سمندر سے نکل کر ساحل کے کنارے آجاتی ہیں. قدیم یورپ میں جلپریوں کا تصورمرفالک کی کہانیوں سے آتا ہے۔ جو پانی میں رہنے والے انسان نما مخلوق تھے۔ اورجلپریا ان کی خواتین تھیں۔ مرفالک یا مرمین کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مصر کے تین طاقتوردیوتاؤں میں سے ایک تھے جن کا نام پوزائیڈن تھا۔ یہ سمندر اورطوفان کا دیوتا ہے۔ افریقی مذہب میں بھی ایسے ہی سمندری مرمین کی کہانیاں مشہور ہیں۔ اگر قدیم یونان کی بات کریں تو یونان میں جل پریوں کو سائرن کہا جاتا تھا جن کا ذکر یونان کے مشہور کتاب میں ملتا ہے یونانی اساتیر کے مطابق سائرن پانی میں رہنے والی وہ مخلوق تھی جس کا جسم خوبصورت عورتوں کی طرح ہوتا تھا جو سمندر کے بیچ میں پائے جانے والے چٹانوں پر رہا کرتی تھی جب بھی کوئی جہاز راستہ بھٹک کر ان کے قریب پہنچتا تو یہ سائرن سریلی آواز میں گانا گانے لگتی ان کی آواز میں ایسی کشش ہوتی تھی کہ سننے والا اس میں گم ہو جاتا اور وہ ان کی طرف کھینچا چلا جاتا یہ انہیں اپنی آواز اور خوبصورتی کے جادو میں پھنسا کر ویران جگہ پر لے جاتی اور پھر انہیں اپنا خوراک بنا لیتی فرعون کی سرزمین قدیم مصر کی بات کریں تو وہاں النادا نامی مخلوق کا تذکرہ ملتا ہے جو نیل ندی میں رہا کرتی تھی یہ خوبصورت مچھلی نما عورت تھی جس کے بال سرخ رنگ کے تھے اور جو بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ کھو جاتا اور اس کی محبت میں ڈوب جاتا۔ اس کی تصویریں مصری مقبروں اور کھنڈرات میں آج بھی ملتی ہیں۔ جل پریوں کا ذکر ہندو مذہب میں بھی ملتا ہے ہندو مائیتھولوجی میں انہیں متسیا کنیا کہا جاتا ہے جو سمندر دریاؤں اور نہروں میں پائی جاتی ہے انہیں سمندر کے عظیم دیوتا ورنہ کی بیٹیاں کہا گیا ہے اس مخلوق کے متعلق متھسیا پرانا نامی ایک کتاب بھی موجود ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راون کی ایک بیٹی تھی جس کا نام سوانہ مچا تھا جو آدھی عورت اور آدھی مچھلی تھی جب شری رام چندر کی بندروں کی لشکر ہندوستان سے سری لنکا تک پتھروں کا پل تیار کر رہی تھی تو یہ انہیں تنگ کرتی اور پتھر وہ ادھر ادھر کر دیا کرتی روس اور یوکرین کے قدیم قبائل میں بھی مرمیٹ کے قصے مشہور ہیں جنہیں وہاں روسالکا کہا جاتا ہے ان کے افسانہ کے مطابق روسالکا مری ہوئی لڑکیوں کی روحیں ہوتی ہیں خاص کر ان عورتوں کی جنہیں قتل کردیا گیا ہو یا مظلومیت سے مار دیا گیا ہو روسالکا خوبصورت روپ میں چاند کی روشنی میں سمندر کے کنارے رقص کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کے نام سے پکارتی تھیں اور ان کے پاس جاتے ہی لوگ پانی میں ڈوب کر مر جاتے تھے ہے جب کہ قدیم چینی لوگ مرمیٹ کو لنگیو کہا کرتے تھے۔ قدیم چین میں جل پریوں کے آنسوؤں کو بہت قیمتی مانا جاتا تھا۔ کیونکہ ان کے آنسو خاص قسم کی موتیوں میں بدل جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مچھوارے ہمیشہ ان جل پریوں کے شکار کی تلاش میں رہتے تھے۔ لینگیوں کے بارے میں چینیوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر کوئی انسان لینگیوں کا گوشت کھا لے تو اسے خوبصورتی اور لمبی عمر ملتی ہے. تاریخ میں ان مرمیٹس کے متعلق بہت سارے واقعات تاریخی کتابوں میں ریکارڈز بھی کیے گئے ہیں۔ مثلا مشہور رومن مصنف اور فلسفی پینی ڈی ایلڈر نے اپنی قدرتی تاریخ نامی کتاب میں مرمیٹ کے متعلق لکھا ہے۔ پینی نے بتایا کہ مشہور رومن بادشاہ آگسٹس کے سپاہیوں نے سمندر کے کنارے بہت ساری جل پریوں کی لاشیں دیکھی تھیں۔ مرمیٹ کا ایک قصہ ہزار سال قبل از مس مسیح میں لکھا گیا تھا یہ قصہ آسیریا کا ہے کہا جاتا ہے کہ اسیریا میں دیوی رہا کرتی تھی کو چاند کی دیوی مانا جاتا تھا اور اسیریا کے لوگ چار ہزار سال پہلے اس کی پوجا کرتے تھے لیکن اسے ایک دن بھیڑ چرانے والے ایک شخص سے محبت ہو گئی کہتے ہیں کہ جب نے اس کے ساتھ جنسی تعلق بنایا تو وہ شخص کی طاقت کو جھیل نہ پایا اور وہ مر گیا۔ کو اس بات کا بہت صدمہ پہنچا۔ دکھ اور پچھتاوے میں آ کر وہ ایک جھیل میں کود گئی۔ لیکن اس کی طاقت و خصوصیت نے اسے مرنے نہ دیا اور وہ ہمیشہ کے لیے پانی کے اندر ایک مچھلی بن کر رہ گئی۔ جو دنیا کی پہلی جل پری تھی۔ اس نے پانی میں ایک بچے کو بھی جنم دیا جو آگے چل کر اسیریا کی رانی بنی۔ جسے سمرامس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جھل پریوں کے بارے میں جو چیز سب سے حیرت انگیز ہے وہ یہ کہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں کے لوگوں نے بالکل ایک جیسی مخلوق کا ذکر کیا ہے یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں جس کا اس وقت آپس میں کوئی خاص رابطہ بھی نہیں تھا ان تمام لوگوں نے ایک ہی مخلوق کے متعلق بیان دیا ہے دنیا بھر میں جھل پریوں کو دیکھے جانے کے کئی واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ البتہ ان میں زیادہ تر جھوٹی، fake اور بناوٹی ہیں۔ لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ساحلی علاقوں میں رہنے والے ملاح لوگوں نے جل پری دیکھے جانے کے واقعات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان مرمٹس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا دعوی کیا ہے۔ ان ملاحوں میں ایک بڑا نام انیسویں صدی کے ایک مشہور سیاہ کرسٹوفر کولمبس کا ہے۔ جس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ کولمبس نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ ایک سفر کے دوران جب اس کی جہاز کیریبین سمندر میں پہنچی تو اس کے اور اس کے ملاحوں نے اپنی آنکھوں سے مرمٹس کو دیکھا تھا۔ یہاں کولمبس نے تین جلپریا دیکھی جو ان کے جہاز کے اردگرد منڈلا رہی تھی۔ سائنسدانوں نے اسے صرف کولمبس کا دھوکہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ کولمبس کئی دنوں سے سویا نہیں تھا اور ایک لمبے سفر کی وجہ سے تھک چکا تھا لہذا اسے صرف ہوا ہوگا لیکن کولمبس اپنی پوری زندگی یہی دعوی کرتا رہا کہ وہ مخلوق جل پڑی ہی تھی جو جہاز میں موجود لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی پندرہویں صدی میں صرف کولمبس ہی ایسا شخص نہیں تھا جس نے چل پریوں کو دیکھنے کا دعوی کیا تھا۔ کولمبس سے پہلے اس سال چودہ سو تیس میں نیدرلینڈ کے شہر ایڈم میں ایک خوفناک سمندری طوفان نے شہر میں تباہی مچا دی۔ پورے شہر میں سیلاب اور سونامی جیسے حالات ہو گئے تھے۔ لوگوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ طوفان کے بعد انہوں نے جلپری جیسی مخلوق کو سمندر کے کنارے مردہ پایا تھا۔ سال سولہ سو گیارہ میں مشہور انگلش ایکسپلورر ہینری ہٹسن نے اپنے سفر کے متعلق ایک جرنل لکھا تھا جس میں انہوں نے یہ بتایا کہ ناروے کے قریب موجود سمندر کے پاس انہوں نے جل پریوں کے ایک جھنڈ کو دیکھا تھا۔ یہ مرمیڈ ان کے ناو کے چاروں طرف موجود تھی۔ جن کے جسم کا رنگ سفید تھا۔ اور بال کا رنگ بالکل سیاہ تھا جو کافی لمبے تھے۔ سیکنڈ ورلڈ وار کے دوران بھی انڈونیشیا کے کی آئرلینڈ پر کچھ جاپانی سپاہیوں کو عجیب و غریب مخلوق پانی میں تیرتا دکھائی دیا تھا. مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ پانی میں رہنے والی جھل پریاں ہیں جو یہاں ہزاروں سال سے رہتی ہیں. جھلپنیوں کو دیکھے جانے کے واقعات صرف پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہی نہیں بلکہ اس جدید دور میں بھی ملے ہیں جس میں سیاح اور سمندری ایکسپلورر نے اپنے کیمرے میں مرمیٹ نما مخلوق کو ریکارڈ کیا ہے اکتوبر دو ہزار سترہ میں میرا پتھر میں ایک آسٹریلین باشندہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تب ہی اس کی نظر ایک عجیب سی چیز پر پڑی اس نے دیکھا کہ پیلے لباس میں دو آدمی ایک سٹریچر پر کسی کو لے کر جا رہے ہیں اس مخلوق کے جسم کا نچلا حصہ نیلا اور مچھلی نما تھا یہ لوگ اسے کہاں لے جا رہے تھے یہ معلوم نہ ہو سکا اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ وہ مخلوق جل پڑی تھی اور اسے خفیہ طور پر لیبارٹری میں لے جایا جا رہا تھا سال دو ہزار بارہ میں زمبابوے کے گورکیے شہر میں ایک ڈیم کو بنانے والے مزدوروں کی ٹیم نے بیچ میں ہی کام چھوڑ دیا چونکہ ان کا کہنا تھا کہ ڈیم سے جڑی ندی میں مرمیٹ کا بسیرا ہے جو کہ اس ڈیم کے کام کو روکنے کے لیے مزدوروں کو جان سے بھی مار سکتی ہے ڈیم کو پورا بنانے کے لیے دوسرے شہروں سے لوگوں کو بلایا گیا لیکن کام کے محض دو ہفتے کے بعد ہی انہوں نے بھی کام چھوڑ دیا اور ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ رات کے وقت وہاں جل پریوں کا جھنڈ دیکھا ہے زمبابوے کے مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ اس ندی میں جل پریاں آباد ہیں جو ان کے لیے ایک عذاب ہے اور ندی میں ہونے والے تمام موت اور حادثے ان کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں اسی طرح سال دو ہزار بارہ میں جانوروں کا سیارہ نامی مشہور چینل پر دکھائی گئی دستاویزی فلم کے فوٹیجنے ایک بار پھر سے لوگوں کے من میں جل پریوں کو لے کر کچھ سوال کھڑے کیے اس دستاویزی فلم کا نام تھا کچھ لوگ پانی کے گہرائی میں رہنے والے جانداروں کا پتا لگا رہے تھے تب انہوں نے ایک ایسی مخلوق دیکھی جس کا آدھا جسم انسانوں کی طرح اور آدھا مچھلی کے مانند تھا اس کی جھلک ویڈیو میں بھی قید کر لی گئی یہ ویڈیو اسرائیل کے کری آٹ نامی شہر کے ساحل پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ جس میں کچھ سیاح کو بیچ کے چٹانوں پر ایک مخلوق دکھائی دیتی ہے۔ سیاح کا کہنا تھا کہ انہوں نے کیمرے میں مرمٹ کو قبضہ کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس مخلوق نے ان کی طرف دیکھ کر ایک عجیب سی آواز بھی نکالی تھی.
جلپری ہوتی کیا ہے?جل پریوں کی افسانوی کہانی کیسے شروع ہوئی
Related Content
One response to “جلپری ہوتی کیا ہے?جل پریوں کی افسانوی کہانی کیسے شروع ہوئی”
-
Good
Leave a Comment