بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہونے کے ناطے حج کو ایک سالانہ روحانی تجربے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جو مسلمانوں نے اپنی زندگی کے تعین اپنی بندگی اور ایمان کا اظہار کرنے کے لیے کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ میں حج کی ادائیگی کے لیے خانہ کعبہ کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم حج کے ہونے کے لیے ایک مسلمان کا جسمانی ذہنی اور مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے حج کے لیے مالی اور جسمانی طور پر استطاعت رکھنے کی شرط کو استغفار کہا جاتا ہے جہاں کامیابی سے سفر کرنے والے مسلمان کو حاجی یا مصطح کہا جاتا ہے اللہ تعالی نے حج کی اہمیت کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے لوٹنے کی جگہ اور حفاظت کی جگہ بنایا اور اے ایمان والوں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ سے نماز کی جگہ بنا لو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک کر دو قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے تمام لوگوں کو حج کی طرف بلاؤ وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر دبلے اونٹ پر ہر دور دراز راستے سے آئیں گے لبیک لبیک حج کے مناسک پانچ یا چھ دن کے دورانیے میں ادا کیے جاتے ہیں۔ باضابطہ طور پر آٹھ تاریخ سے شروع ہوتے ہیں۔ حج اصلاح میں سب سے بڑا سالانہ مذہبی تقریب ہے۔ لفظی معنی سفر کا ارادہ کرنا حج کے سات مراحل ہیں جو یہ ہیں۔ پہلا مرحلہ احرام اور نیت دوسرا مرحلہ منی عرفہ خیموں کا شہر تیسرا مرحلہ منیٰ سے عرفات تک نو ذی الحجہ کا دن۔ چوتھا مرحلہ مزدلفہ پانچواں مرحلہ یعنی شیطان کو کنکر مارنا چھٹا مرحلہ نہر اور ساتواں مرحلہ الوداعی طواف خالص نیت کرنا اور احرام باندھنا حج کے لیے جانے کے پہلے دو ضروری مراحل ہیں نیت کرنے کے بعد مسلمان حجاج کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ احرام پہنیں مردوں کے لیے بغیر سلی ہوئی سفید چادروں کے دو ٹکڑے اور خواتین کے لیے ڈھیلا ڈھالا ابایا پورے جسم کو طرح سے ڈھانپیں ضروری ہے کہ حجاج کرام کو میکات یعنی مکہ کی بیرونی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ذی الحجہ کو احرام باندھنا چاہیے حجاج کے لیے پانچ داخلی مقامات یا متعلقہ میکات یہ ہیں ۔ ابیار علی ذوالحلیفہ یہ مدینہ کے راستے یا سعودی عرب سے آنے والے حاجیوں کے لیے میقات کا مقام ہے قرن المنزل طائف سے آنے والے زائرین کے لیے یہ میقات کا مقام ہے السائل الکبیر الجوفہ ربیعہ کے قریب واقع ہے یہ مصر شام یا مراکش سے آنے والے زائرین کے لیے میقات کا مقام ہے عراق سے یا اس کے راستے آنے والے حاجیوں کے لیے یہ میقات کا نقطہ ہے سعدی یہ یمن ہندوستان یا پاکستان سے آنے والے حاجیوں کے لیے میکات کا مقام ہے۔ اس کے علاوہ احرام میں ایک بار حجاج کو تلبیہ پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اور تمام گناہوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ تلبیہ اونچی آواز میں پڑھی جائے۔ لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک ہر وقت خدمت میں اے اللہ ہر تیری خدمت میں کبھی آپ کی خدمت میں آپ کا کوئی شریک نہیں کبھی آپ کی خدمت میں بے شک تمام تعریفیں نعمتیں اور بادشاہتیں تیری ہی ہیں تمہارا کوئی شریک نہیں ہے اللہ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں نے ارادہ کیا عمرہ اور اس کے ساتھ حج اس کے لیے مسلمان خانہ کعبہ کے گرد سات بار گھڑی کے مخالف سمت میں چلتے ہیں جسے طواف کہتے ہیں اس کے بعد وہ طواف مکمل کرنے کی نماز ادا کرتے ہیں عموما مقام ابراہیم کے پیچھے اور صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہوئے عمرہ کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں عمرہ مکمل ہونے کے بعد زائرین منٰی کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں دوسرا مرحلہ منیٰ خیموں کا شہر مکہ مکرمہ سے پانچ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے منیٰ ایک چھوٹا سا شہر ہے خیمے کے شہر منی میں پہنچ کر عازمین کو اگلے دن تک وہاں آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ظہر کی نماز سے شروع ہو کر فجر کی نماز پر ختم ہو کر حجاج منیٰ میں قیام کے دوران پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں آج منی سرزمین جدید خیموں پر مشتمل ہے جو تمام ضروری سہولیات سے آراستہ ہیں مسلمانوں کو منی میں قیام کے دوران لازمی اور غیر لازمی دونوں نمازیں پڑھنی چاہیے تیسرا مرحلہ منیٰ سے عرفات تک نو ذی الحجہ کا دن ذوالحجہ کو حجاج اپنی آواز کی بلندی پر تلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں مسلمان حج کے دوسرے دن کی صبح یعنی نو ذی الحجہ کو حج کے دن کی صبح حجاج زائرین کا مشاہدہ کرتے ہیں عرفات کی پہاڑی پر پہنچنے پر ظہر اور عصر کی نماز عصر کی نماز کے ساتھ اور جبل الرحمہ کے قریب دوپہر سے غروب آفتاب تک مشاہدہ کیا جاتا ہے اسے وقوف کہا جاتا ہے منیٰ سے چودہ کلومیٹر کے فاصلے پر عرفات کا پہاڑ رحمت یا جبل الرحمہ تھا جہاں محبوب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری خطبے کا کچھ حصہ پیش کیا مرحلہ چار مزدلفہ عازمین حج کی اگلی منزل مزدلفہ ہے جو منیٰ اور کوہ عرفات کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے مزدلفہ کے میدان میں غروب آفتاب پر پہنچنے پر حجاج مغرب اور عشاء کی مشترکہ نماز مغربین ادا کرتے ہیں مسلمان پوری ایک رات کھلے آسمان تلے گزارتے ہیں اور شیطان کو کنکر مارتے ہیں اور شیطان کو سنسار کرنے کی رسم کے لیے اسی سائز کے انچاس کنکر جمع کرتے ہیں اس کے بعد وہ دس کی صبح مزدلفہ شہر سے نکلیں گے. میرا جملہ صحیح کرنا حجاج الطواف اور صحیح کرنے کے لیے مکہ واپس روانہ ہوئے ہیں۔ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان چلنے کا عمل ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد مسلمان پھر منیٰ واپس چلے جاتے ہیں۔ تاکہ شیطان کو کنکر مار سکیں۔ مرحلہ پانچ شیطان کو سنگسار کرنا منا پہنچ کر حجاج کرام رامی کا عمل کرتے ہیں۔ سنگسار جمرات الاقباء کالم کے ڈھانچے پر سات پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ جمعرات میں رجم کی جاتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں جب شیطان نے اسے اللہ کے حکم پر عمل کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو دور کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکی رومی ہر روز دوپہر کے وقت کی جانی چاہیے ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو شیطان کو سنگسار کیا جاتا ہے مرحلہ چھ نہر ذوالحجہ مسلم عازمین کو نصیحت کی جاتی ہے جانور کی قربانیاں کرنا یہ اونٹیاں بچہ ہو سکتا ہے شیطان کو سنگسار کرنے کے بعد حجاج تو قربانی کے کوپن یا واؤچر خرید سکتے ہیں یہ بتاتے ہوئے کہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہے قربانی کے جانور کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے حلق اور تقسیر حلق کا مطلب ہے سر منڈوانا جبکہ تقسیم کا مطلب ہے بالوں کو چھوٹا کرنا یا تراشنا مقدس قربانی کے بعد حجاج کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سر کو مکمل طور پر منڈوائیں یا تراش لیں جب کہ خواتین کو اپنے سر منڈوانے کی ممانت ہے خواتین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بالوں کو پٹی یا تالا لگا لیں حلق اور تقسیر کا عمل ایک مسلمان سے مکمل عقیدت اور دنیاوی نمود و نمائش سے لاتعلقی کی علامت ہے مرحلہ سات الوداعی طواف یہ رسم مکمل کرنے کے بعد حجاج کرام طواف الوداع کرنے کے لیے مکہ واپس کعبہ آتے ہیں جسے الوداعی طواف کہا جاتا ہے جس کے بعد سعی ہوتی ہے اگرچہ یہ سرکاری طور پر حج کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے بہت سے حجاج گھر جانے سے پہلے مدینہ منورہ بھی جاتے ہیں مسلمان سات بار خانہ کعبہ کا طواف کیوں کرتے ہیں اس کی کوئی خاص وضاحت نہیں ہے کہ مسلمان سات بار کعبہ کے گرد کیوں چکر لگاتے ہیں جس طرح مسلمانوں کو دن میں پانچ بار عبادت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اسی طرح ان کہا جاتا ہے کہ وہ دن میں سات چکر لگائیں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے تاہم طواف کا عمل اس خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ مسلمان کی زندگی صرف اللہ کے احکامات کی تکمیل اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کے گرد گھومتی ہے حج اسلام کے پانچ ضروری ارکان میں سے ایک ہے ہر مسلمان پر فرض ہونے کی وجہ سے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کم is کم اسے زندگی میں ایک بار ضرور کرنا چاہیے. اللہ تعالی مجھ سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں کو حج کی سعادت نصیب فرمائے. آمین یا رب العالمین.
Leave a Comment