بسم اللہ الرحمن الرحیم پاک پروردگار کے بابرکت نام سے شروع کرتا ہوں جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے محترم ناظرین کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایک انسان اپنی زندگی کی مشکلات سے کیسے نکل سکتا ہے کیا دولت اور طاقت ہی ہماری کامیابی کی کنجی ہیں کیا ایمان اور نیکی کا راستہ ہمیں سکون اور حقیقی کامیابی تک لے جاتا ہے یہ کہانی آپ کو کابل کی گلیوں سے غزنی کے شاندار دربار تک لے جائے گی جہاں دوست اپنی قسمت بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں سفر کے دوران ان کی ملاقات ایک ایسے نیک انسان سے ہوتی ہے جو دنیاوی مال و دولت کو رد کر کے اللہ پر بھروسہ کرتا ہے لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو سچائی اور جھوٹ کے درمیان ایک جنگ چھڑ جاتی ہے اور انجام ایسا ہوتا ہے جو آپ کے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا کابل کی گلیوں میں شام کا وکت۔ سورج رہا تھا۔
اور بازاروں میں لوگوں کی چہل پہل کم ہو رہی تھی.
حسن اور عمر دو دوست جو گُربت کے ہاتھ میں مجبور تھے۔ شہر کے ایک پرانے درجے کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنی نوعیت کا رونا رونا ہے۔ حسن ایک ہونرمند کاریگر کبھی اپنی مہرت کے لیے مشہور مگر اب بے روزگاری کی وجہ سے فاقوں پر مجبور تھا عمر ایک کسان جو کبھی اپنی کھیتی کی ہریالی پر فخر کرتا تھا آج اپنی خشک بنجر زمین کی فکر میں ڈوب گیا تھا. ان دونوں کی کہانی کے بارے میں ایک طرح کی کہانی اور بیبسی کا اظہار کرنا تھا۔ عمر نے مایوس عالم میں کہا کہ حسن تم نے کبھی سوچا ہے؟ اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں? حسن نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا زندگی ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیتی ہے.
لیکن میں نے سنا کہ غزنی کا سلطان محمود بہت سخاوت مند ہے شاید وہ ہماری مدد کر سکیں یہ ایک خیال تھا لیکن یہ خیال دونوں کے دلوں میں امید کی ایک شمع جلا گیا دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حالات کو بدلنے کے لیے غزنی کا رخ کریں گے جہاں سلطان محمود کے دربار میں انہیں اپنی قسمت بدلنے کا موقع ملے گا راستے میں جب وہ دونوں اپنے مستقبل کے خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے ان کی ملاقات ایک بوڑھے شخص بابا یونس سے ہو گئی بابا یونس ایک سادہ لباس میں ملبوس تھے ان کے چہرے پر اطمینان اور دل میں سکون کی جھلک تھی حسن نے ان سے پوچھا بابا جی آپ کہاں جا رہے ہیں بابا یونس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بیٹا میرا سفر کہیں ختم نہیں ہوتا میں اللہ کی رضا جیتا ہوں اور لوگوں کی مدد کے لیے جہاں ضرورت ہو وہاں پہنچتا ہوں عمر نے دلچسپی سے پوچھا آپ کے پاس کچھ نہیں نہ دولت نہ طاقت پھر آپ اتنے پرسکون کیسے ہیں بابا یونس نے گہری نظر سے دونوں کو دیکھا اور کہا بیٹا سکون دولت میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا میں ہیں جو شخص اپنی نیت صاف رکھتا ہے اور محنت کرتا ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے بابا یونس کی باتوں میں حسن اور عمر کو متاثر کیا انہوں نے بابا اپنے ساتھ غزنی چلنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کر لیا تینوں نے مل کر اپنے سفر کو جاری رکھا اور ہر قدم پر بابا یونس کی حکمت اور نصیحتوں میں ان کے دلوں کو مضبوط کیا غزنی کے شاندار دربار کا منظر کچھ اور ہی تھا محل کے اردگرد بلند دیواریں اور اندر شاندار ہول تھے جہاں سلطان محمود اپنی رعایا کے مسائل سننے کے لیے موجود تھے دربار کے باہر سینکڑوں غریب اور ضرورت مند لوگ سلطان سے مدد کی امید لیے کھڑے تھے حسن عمر بابا یونس بھی ان لوگوں میں شامل تھے.جب ان کی باری آئی تو دربان نے انہیں اندر جانے کی اجازت دی.
سلطان محمود اپنی عالی شان مسند پر بیٹھے تھے. اور ان کے چہرے پر وقار اور ہمدردی کی جھلک تھی. حسن نے جھک کر کہا اے سلطان میں ایک غریب کاریگر ہوں. جو اپنی ہنر سے کچھ کمانا چاہتا ہوں. مگر قسمت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے. براہ کرم میری مدد کریں. آ کے میں اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کر سکوں. عمر نے بھی اپنی کے بعد اے سلطان میں کسان ہوں لیکن اس کی وجہ سے میری زمین بنجر ہو گئی ہے۔ اگر آپ مجھے زمین کا ایک ٹکڑا دے دیں تو میں کھیتی باڑی کر کے اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہوں۔ پھر سلطان نے بابا یونس سے پوچھا اور کہا بابا آپ کیا چاہتے ہیں؟ بابا یونس نے مسکراتے ہوئے کہا مجھے کچھ نہیں۔ میرے لیے اللہ کی رضا کافی ہے میں دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ عدل کریں اور اپنی رعایا کی مدد کریں نے حسن کو دولت عمر کو زمین اور بابا یونس کو عزت کے ساتھ رخصت کیا حسن اور عمر اپنی دولت اور زمین حاصل کرنے کے بعد خوش تھے لیکن ان کے دلوں میں لالچ اور غرور پیدا ہوگیا انہوں نے محسوس کیا کہ بابا یونس کا اللہ پر بھروسہ ان کی کامیابی میں ایک رکاوٹ ہے انہوں نے ایک سازش تیار کی اور سلطان محمود کے دربار میں جا کر جھوٹا الزام لگایا کہ بابا یونس ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں سلطان جو پہلے ہی مصروف تھے انہوں نے بغیر کے بابا یونس کو قید میں ڈالنے کا حکم دے دیا قید خانے میں بابا یونس نے اللہ سے مدد مانگی اور دعا کی اے اللہ تو بہتر جانتا ہے کہ میں بے قصور ہوں مجھے اس آزمائش سے نکال اور حق کو ظاہر کر دے سلطان کے دربار میں ایک نیک دل وزیر نے بابا یونس کے معاملے کی تحقیقات کی اس نے تمام شواہد اکٹھے کیے اور سلطان کو پیش کیے جن سے ثابت ہوا کہ حسن اور عمر نے جھوٹ بولا تھا سلطان کو غلطی کا احساس ہوا اور اس نے فورا بابا یونس کو آزاد کر دیا.
حسن اور عمر کو ان کی جھوٹ کی سزا ملی. اور ان کی دولت اور زمین ہمیشہ کے لیے ضبط کر لی گئی.
بابا یونس نے آزادی کے بعد اپنی زندگی غریبوں کی مدد کے لیے وقف کر دی. ان کی سخاوت اور نیکی نے انہیں لوگوں کے دلوں میں جگہ دی. وہ دن رات محنت کرتے اور اپنی کمائی ضرورت مندوں میں بانٹتے تھے.
محترم عزیز دوستوں کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ بھروسہ ہی حقیقی سکون کا ذریعہ ہے بابا یونس کی شخصیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جب انسان اپنے رب پر مکمل یقین رکھتا ہے تو دنیا کی مشکلات اسے ہلا نہیں سکتی مال و دولت عارضی ہے لیکن اللہ کی رضا ایک دائمی سکون فراہم کرتی ہے بابا یونس کی دعا اور صبر نے ثابت کیا کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا اس کہانی میں دو کردار حسن اور عمر کی کہانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ دولت اور کے حصول میں اگر انسان غلط راستہ اپنائے تو وہ نہ صرف اپنی کامیابی کھو دیتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتا ہے ان کی لالچ نے انہیں ایسی گمراہی میں دھکیل دیا کہ وہ اپنی عزت اور خوشیاں بھی گنوا بیٹھے یہ داستان ایک آئنہ ہے جو ہمیں اپنی زندگی پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں کس راستے پر ہیں لالچ اور غرور کا یا ایمان اور نیکی کا راستہ یہ کہانی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں اپنی غلطیوں کو پہچانیں۔ ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کریں، کیا آپ نے؟ کبھی سوچا ہے کہ آپ کی زندگی میں بابا یونس جیسا کردار کون ہے یا شاید آپ خود کسی کے لیے بابا یونس بن سکتے ہیں یہی وقت ہے ہم اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا عزم کریں اللہ پر بھروسہ کریں انشاء اللہ تعالی ہماری زندگی بہتر راستے پر ہوگی انہی لفظوں کے ساتھ میں اجازت چاہوں گا
Leave a Comment