درویش کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا. اور اس کی شہرت چار سو پھیل چکی تھی. علاقے کا ایک تاجر صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا. میں خوش کیوں نہیں ہوں؟ وہ پانچ لفظوں کے اس سوال کی پوٹلی اٹھا کر درویش کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ درویش لنگوٹ باندھ کر جنگل میں بیٹھے اللہ کے ذکر میں مصروف تھے۔ تاجر نے سوال کیا میں خوش کیوں نہیں ہوں۔ درویش نے سنا قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا تمہارے پاس سب سے قیمتی ترین چیز کون سی ہے؟ تاجر نے جواب دیا میرے پاس نیلے رنگ کا ایک نایاب ہیرا ہے۔ درویش نے پوچھا تم نے یہ ہیرا کہاں سے لیا تھا؟ تاجر نے جواب یہ ہیرا میری تین نسلوں کی کمائی ہے میرے دادا حضور جو کماتے تھے وہ اس سے سونا خرید لیتے تھے دادا اپنا سونا میرے باپ کو دے گئے باپ نے جو کمایا انہوں نے بھی اس سے سونا خریدا اور اپنا اور اپنے والد کا سونا جمع کر کے میرے حوالے کر دیا میں نے بھی جو کچھ کمایا اسے سونے میں تبدیل کیا اپنی تین نسلوں کا سونا جمع کیا اور اس سے نیلے رنگ کا ہیرا خرید لیا درویش نے پوچھ وہ ہیرا کہاں ہے؟ تاجر نے اپنی میلی کچیلی ٹوپی اتاری۔ ٹوپی کا استر پھاڑا۔ ہیرا ٹوپی کے اندر سلا ہوا تھا۔ تاجر نے ہیرا نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیا۔ ہیرا واقعی بہت خوبصورت اور قیمتی تھا۔ ہیرا دیکھ کر درویش کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ انہوں نے تاجر کی ہتھیلی سے ہیرا اٹھایا اپنی مٹھی میں بند کیا اور ہیرا لے کر دوڑ لگا دی۔ تاجر کا دل ڈوب گیا. اس نے جوتے ہاتھ میں اٹھائے اور درویش کو گالیاں دیتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑا. درویش آگے تاجر اس کی گالیاں اور اس کی بد دعائیں درویش کے پیچھے پیچھے تھیں. اور ان دونوں کے دائیں اور بائیں گھنا جنگل تھا. درویش بھاگتے چلے گئے اور تاجر ان کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا رہا. یہ لوگ صبح سے شام تک بھاگتے رہے. یہاں تک کہ جنگل کے ایک حصے میں پہنچ کر درویش ان کے اور ایک برگت کے درخت پر چڑھ گئے. اب صورت حال یہ تھی درویش درخت کے اوپر بیٹھے تھے. ہیرا ان کی مٹھی میں تھا. تاجر الجھے ہوئے بالوں پھٹی ہوئی ایڑیوں اور پسینے میں شراب اور جسم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا. وہ درویش کو کبھی دھمکی دیتا اور کبھی ان کی منتیں کرتا. وہ درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کرتا لیکن درویش درخت کی شاخیں ہلا کر اس کی کوششیں ناکام بنا دیتے. تاجر تھک گیا تو درویش نے اس سے کہا میں تمہیں صرف اس شرط پر ہیرا واپس کرنے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اپنا خدا مان لو تاجر نے فورا ہاتھ باندھے اور درویش کی کا نعرہ لگا دیا درویش نے مٹھی کھولی ہیرا چٹکی میں اٹھایا اور تاجر کے پیروں میں پھینک دیا تاجر کے چہرے پر چمک آ گئی اس نے لپک کر ہیرا اٹھایا پھونک مار کر اسے صاف کیا ٹوپی میں رکھا اور دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگا درویش سے اترے تاجر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ہم صرف اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمیں کھوئی ہوئی نعمتیں واپس ملتی ہیں تم اپنی طرف دیکھو تم اس وقت کتنے خوش ہو بلکہ تم کھوئی نعمتوں کو واپس پانے کے لیے غیر خدا کو خدا کہنے پر مجبور ہو گئے تاجر نے اپنے قہقہوں پر توجہ دی تھوڑا سا سوچا اور اس کے بعد پوچھا حضور نے سمجھا نہیں کچھ وضاحت کر دیں درویش نے فرمایا تمہارے سوال کا جواب ہے اللہ تعالی کی نعمتیں ہیروں کی طرح ہوتی ہیں ہم ان نعمتوں کو ہیروں کو ٹوپیوں میں سیکھ کر پھرتے رہتے ہیں ہم ان کی قدر و قیمت بھول جاتے ہیں اللہ تعالی ایک دن ہم سے یہ نعمتیں چھین لیتا ہے ہمیں اس دن پہلی بار ان نعمتوں کے قیمتی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ہم اس کے بعد چھینی ہوئی نعمتوں کے پیچھے اس طرح دیوانہ وار دوڑتے ہیں جس طرح تم ہیرے کے لیے میرے پیچھے بھاگے تھے ہم نے کے دوبارہ حصول کے لیے اس قدر دیوانے ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کو خدا تک مان لیتے ہیں اللہ تعالی کو پھر ایک دن ہم میں سے کچھ لوگوں پر رحم آجاتا ہے اور وہ ہماری نعمتیں ہمیں لوٹا دیتا ہے اور ہمیں جونہی وہ نعمت دوبارہ ملتی ہے ہم خوشی سے چھلانگیں لگانے لگتے ہیں درویش نے اس کے بعد قہقہہ لگایا اور فرمایا تم صرف اس لیے اداس تھے کہ تم نے نعمت کے دوبارہ حصول کا تجربہ نہیں کیا تھا تمہیں نعمتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا تم اب جب ان چیزوں ان نعمتوں کی قدر کا اندازہ لگا چکے ہو تو جو تمہارے پاس موجود ہیں چنانچہ اب تم کبھی اداس نہیں ہو گے تم خوش رہو گے محترم عزیز دوستو ہمارے پاس اللہ تعالی کی بے شمار نعمتیں ہیں جن میں صحت اللہ پاک کی سب سے بڑی نعمت ہے جب ہم ہوتے ہیں. تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کتنی بڑی نعمت ہے. اس کے علاوہ ہمارے پاس درجنوں اللہ پاک کی ایسی نعمتیں موجود ہیں. کہ جب وہ ہم سے چھین لی جاتی ہیں. جب وہ ہم سے دور کر دی جاتی ہیں. تب ہمیں ان کا اندازہ ہوتا ہے. حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آئے اور فرمایا اے علی میرے پاس دنیا کی تمام نعمتیں موجود ہیں. میرے پاس سب کچھ ہے. میرے پاس خوشی نہیں. میں ہر وقت اداس ہوتا ہوں. میری زندگی میں سکون نہیں ہے. مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اے شخص زیادہ چیزوں کی طلب زیادہ چیزوں کی چاہت انسان کو موجود نعمتوں سے بیزار کر دیتی ہے. تم اسی وقت خوش رہ سکتے ہو. جو تمہارے پاس اللہ تعالی کی نعمتیں موجود ہیں. تم ان پر صبر کر لو. تم ان پر راضی ہو جاؤ. لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہر ایک شخص ڈپریشن کا شکار ہے ڈپریشنہوتی کیا ہے ڈپریشن کیوں ہوتی ہے لوگ خوش کیوں نہیں ہیں اس لیے کہ لوگوں میں شکر نہیں ہے جو شخص حالت شکر میں نہیں وہ ڈپریشن کا مریض ہے جب آپ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور جب آپ اللہ کی رضا میں راضی ہو جاتے ہیں تو آپ خوش ہوتے ہیں آپ کی زندگی میں خوشی آتی ہے لیکن جب موجود نعمتوں سے بیزار ہو جاتے ہیں تو آپ کی زندگی ڈپریشنکا شکار ہو جاتی ہے انہی لفظوں کے ساتھ میں اجازت چاہوں گا خدا حافظ اللہ پاک آپ سب کا حافظ و نگہبان
فقیر اور ہیرا اردو اخلاقی کہانی
Related Content
One response to “فقیر اور ہیرا اردو اخلاقی کہانی”
-
[…] فقیر اور ہیرا اردو اخلاقی کہانی Aik Dewwana Ki Kahani | Ashq e Rasool SAW ایک دیوانہ کی کہانی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم, Ashq e Rasool SAW, ایک دیوانہ کی کہانی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم […]
Leave a Comment