اپنے وقت میں ہندوستان کا بڑا نامور بادشاہ تھا اس کا اصل نام روشن اختر تھا وہ شاہ جہان اختر کا بیٹا اور شہنشاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا یہ سترہ نمبر سترہ سو انیس کو تخت نشین ہوا یہ مغل سلطنت کا چودواں بادشاہ تھا اس نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے لیے ناصر الدین شاہ کا لقب استعمال کیا مگر تاریخ میں محمد شاہ رنگیلہ کے نام سے مشہور ہے آپ اس کی شہنشاہ نہ طبیعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے اپنے دور میں اپنے سب سے پسندیدہ گھوڑے کو بھی وزیر کا درجہ دے دیا تھا اور یہ گھوڑا شاہی دربار خلت فاخرہ پہن کر شریک ہوتا وزیروں کے ساتھ ہوتا اور ہر ایک وزیر کا پورا پروٹوکول انجوائے کرتا. اور گھوڑے کو وزارت عطا کرنے والا یہ غالبا پہلا اور آخری شخص تھا. محمد شاہ رنگیلا ایک دن ایک قانون بناتا اگلے دن خود سب سے پہلے اس کی پامالی کرتا اور اسے فی الفور ختم کر دیتا. دن رات شراب پیتا اور بعض اوقات و طوائفوں اور خوبصورت عورتوں کو لٹا کر ان کے اوپر بیٹھ کر دربار کی سرپرستی فرماتا. کبھی زنانہ میں ملبوس ہو کر تمام وزراء اور رؤساء کو بھی خواتین لباس زیب تن کرنے کا حکم دیتا اور یہ تمام واہ واہ کرتے ہر حکم بجا لاتے کسی میں بھی کبھی کسی قسم کے انکار کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں تھی یہ اپنے قاضی کو شراب سے وضو کرنے کا حکم دیتا اور نظریہ ضرورت کا مارا قاضی منٹ کی بھی دیر نہ لگاتا اس کا حکم تھا کہ ملک بھر کی تمام خوبصورت عورتیں اس کی ملکیت اور امانت ہیں اور جو بھی اس امانت میں خیانت کرتا اور اس کا حکم رنگیلا بادشاہ کو ہو جاتا تو وہ اسی وقت قابل گردن زنی قرار دیتا. روزانہ ایک حکم پر سینکڑوں قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیتا. ساتھ ہی جیلر کو گنتی پوری کرنے کا حکم دیتا. نتیجتا جیلر اتنے ہی بے گناہ افراد کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیتا. یہ شراب پی کر اپنے گردے جگر اور اپنے جسم کا پورا نظام تباہ کر بیٹھا. اور یہ ترین شہنشاہ چھبیس اپریل سترہ سو اڑتالیس کو انتقال کر گیا. اس نے لگ بھگ انتیس برس حکمرانی کی اور تاریخ میں اپنا نام ایک غلیظ کردار کے نام پر لکھوا کر اس دار فانی سے کوچ کر گیا. اسی رنگیلا بادشاہ کے دور میں نادر شاہ درانی نے دہلی میں بدترین قتل عام کے بعد جب دلی فتح کر لیا تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے شاہی محل میں فاتح بادشاہ کا کرم جوشی سے استقبال کیا. کہتے ہیں کہ نادر دورانی نے دلی کے اس قتل عام کا حکم صرف ایک لفظ کہہ کر دیا تھا اور وہ لفظ تھا بزن فارسی کا یہ لفظ انگریزی زبان کے لفظ بیگن کا ہمبزن ہے جس کا مطلب ہے شروع کرو یا شروع ہو جاؤ جب ایرانی لشکر کے گھوڑوں کی صبح خون سے سرخ ہو گئیں تو نادر شاہ فاتح کی حیثیت سے شاہی محل میں داخل ہوا اور محمد شاہ رنگیلا کی جانب سے خود کو ملنے والی اس شاندار مہمان نوازی پر حیران رہ گیا لوگوں نے کہ محمد شاہ رنگیلا نے اسے اپنے تخت پر ساتھ بٹھا لیا. گویا ایک نیام میں دو تلواریں سما گئی تھی. فاتح بادشاہ نے مفتوح بادشاہ کے تخت پر اس کے ساتھ بیٹھنے کے بعد اپنی شرائط منوانا شروع کی. محمد شاہ رنگیلا نے اپنے مشہور و معروف خاندانی ہیرا کوہ نور اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا. نادر شاہ کو اس کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی کہ ہیرا کہاں ہے کیونکہ مخبر کب اور کہاں نہیں ہوتے. اس زمانے میں بھی نادر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی محمد شاہ رنگیلا کو اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا اور بولا جس طرح دو عورتیں دوپٹہ بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں کیوں نہ ہم دونوں بھی پگڑی بدل کر آپس میں بھائی بن جائیں یہ کہہ کر نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا کی پگڑی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی اور اپنی پگڑی محمد شاہ کے سر پر سجا دی اس طرح کوہ نور حرا بڑی صفائی کے ساتھ نادر شاہ کی تحویل میں پہنچ گیا نا اہل اور مفتوح مغل بادشاہ اپنی کمزوری پر بیج و تاب کھا کر رہ گیا لیکن کچھ کہہ نہ سکا جنگ تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طاؤس بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا جو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہان نے بڑے سے بنوایا تھا ان سب کے علاوہ اب فاتح بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ محمد شاہ رنگیلا اپنی بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے پڑھوا دے تاکہ دونوں بھائیوں کے درمیان یہ رشتہ مزید مضبوط ہو جائے چونکہ مفتوح کے پاس فاتح کی بات ماننے کے سوا دوسرا کوئی اختیارات نہیں تھا لہذا نکاح کی تقریب کے لیے پنڈال سجا دیا گیا محمد شاہ رنگیلا بہرحال ایک خاندانی بادشاہ تھا اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندانی پشتوں سے چلی آ رہی تھی جب کہ نادر شاہ دورانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا ایک دوسری روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی محمد شاہ کی کسی نے اس کے کان میں یہ جڑ دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی صحیح ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو جائے گا لہذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نصب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک بابر سے امیر تیمور تک اور تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ دورانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ نصب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا۔ پھر وہ پنڈال میں یکا یک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار نکال کر بولا لکھو ابن شمشیر بن شمشیر بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔ حافظ و نگہبان
Leave a Comment