عباسی دور خلافت میں خلیفہ ابو جعفر المنصور کے زمانے میں خراسان کے علاقے مرو کے ایک معمولی گاؤں میں ایک دھوبی کے گھر بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام ہاشمیہ شام رکھا گیا۔ لیکن یہ مشہور ابن مکنا کے نام سے ہوا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کراہت کی حد تک بدصورت ہونے کے سبب نقاب اڑ کر رہتا تھا۔ مکنا نے کہا کہا جاتا ہے خراسان کے ایک گاؤں میں دھوبی کے گھر پیدا ہونے والے اس شخص کی کوئی پہچان نہیں تھی البتہ اس کی انتہائی بد شکل اور کریہ تھی کہ لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے تھے اور اس کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے لوگوں کی اس نفرت کے سبب اس کے اندر کے حسد اور احساس کمتری نے اس کو حد سے زیادہ متاثر کیا اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ لوگ جو اس کو کم تر اور بدصورت جانتے ہیں اسے ان لوگوں حکمرانی کرنی ہے انہوں نے مکانہ اپنی جوانی کے زمانے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک جانتا پھرا اس دوران اس نے علم کیمیہ جادو شعبدہ بازی اور دیگر علوم و فنون سیکھے اور کئی سال تک اپنے گاؤں سے غائب رہا خلیفہ مہدی کے زمانے میں یہ اپنے گاؤں واپس آ گیا یہ ایک دور دراز گاؤں تھا جہاں دین کے معاملے میں جہالت تھی اس نے اپنے جادو اور کیمیا کے علم کے بل بوتے پر لوگوں کو طرح طرح کی شعبدے بازیاں دکھا کر ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا جب لوگ اسے زیادہ متاثر ہو گئے تو اس نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا جب غازی لوگ اس پر ایمان لے آئے تو وہ انہیں لے کر ماورا نہر کے علاقے کش میں پہنچ گیا دشوار گزار پہاڑی راستوں کے درمیان علاقہ اس کے مضموم مقاصد پر پورا اترتا تھا وہاں اس نے ایک قلعہ تعمیر کر لیا دور دراز اور دشوار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں اسے مضبوط دفاع حاصل تھا اس نے وہاں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا اور اپنے پیروں لوٹ مار حلال قرار دے دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ قلعے میں ہی رہائش اختیار کریں غرض اس لوٹ مار سے اس نے بہت پیسہ دولت حاصل کر لیا یہ لوگ لوٹ مار کرتے اور پھر قلعہ بند ہو جاتے اس علاقے میں وہ دور دور تک مشہور ہو گیا لوگ اسے دیکھنے اور اس سے مناظرہ کرنے آتے تھے کہا جاتا ہے کہ اس کو کوڑ کا مرض بھی لاحق ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ناک اور ہونٹ گل کر جھڑ چکے تھے اب اس نے اپنی چھپانے کے لیے سونے کا ماسک یا نکاح پہننا شروع کر دیا تھا۔ جسے یہ ہر وقت چہرے پر چڑھائے رکھتا تھا۔ اس نے یہ مشہور کر دیا کہ توبہ نعوذ باللہ جبرائیل علیہ السلام نقشب کے ایک مقام پر اس سے کلام کرتے ہیں۔ اور اس کو حکمت کی باتیں بتاتے ہیں۔ ان کے حکم کے مطابق عام گنہگار انسان اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہیں ہیں اس لیے وہ اپنا چہرہ چھپا کر رکھتا ہے۔ بہت سے لوگوں اور بغداد کے علماء نے اسے جھوٹا کہہ کر معجزہ دکھانے کو کہا تو اس نے ایک نقلی چاند بنایا۔ جو نقشب علاقے کے ایک کنویں سے طلوع ہوتا تھا۔ نقشہ درگستان کے ایک شہر کا نام ہے جسے ترکی میں کرشی کہتے ہیں۔ علماء و ماہرین کا خیال ہے کہ اس نے ماہ نقشہ عباس الساد مثل سیماب وغیرہ کے لاگ سے بنا کر نکالا تھا۔ جو دو ماہ تک غروب نہیں ہوتا تھا۔ اور چار فرسن یعنی پندرہ میل تک اس کی روشنی پہنچتی تھی۔ یہ چاند سیماب اور چاندی کے اجزائے ترکیبی اور مکنہ کے فن شبدے بازی کا کمال تھا۔ ضعیف لوگ اسے خدا سمجھ بیٹھے وہ چاند نقشب کے کنویں سے طلوع ہوتا اور تقریبا پندرہ میل کی مسافت کو روشن کرتا یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کیونکہ آج سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود سائنسدان بجلی کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا بلب ایجاد نہیں کر سکے ہیں جو اکیلا اتنے بڑے علاقے کو روشن کر سکے اردو ادب میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اب مرنا کے چڑھائے اس چاند کی خبر دور دراز تک پہنچ گئی لوگ جوق در جوق اس کے پیروکاروں میں شامل ہونے لگے بہت سے لوگ گمراہ ہوئے اور اس کو سجدہ کر کے خدا مان لیا مقنا کے پیروکار رات میں چاہے نقشب کے گرد جمع ہو جاتے اور پھر مقنا چاہے نقشب سے چاند طلوع کرتا جو کافی بلندی پر جا کر مولک ہو جاتا اور ہر طرف روشنی پھیل جاتی جو میلوں دور تک نظر آیا کرتی تھی اس وقت کے خلیفہ مہدی تک اس فتنے کی خبر پہنچی تو اس نے اس فتنے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ اس وقت وہ بہت سے مسائل میں الجھا ہوا تھا جن میں ایک بنو امیہ کی بغاوت تھی دوسری بات یہ کہ اس دور میں اس قسم کے فتنے اکثر سر اٹھاتے رہتے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد خود ہی ختم ہو جایا کرتے لیکن مہدی نے اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن خلیفہ کی یہ لاپرواہی انتہائی سنگین نوعیت کے نتائج لائی اب ابن مخنا کا فتنہ صرف اس کے علاقے تک محدود نہیں رہا بلکہ دور دور تک پھیل گیا اس کے نہ صرف ہر گزرنے والے قافلے کو لوٹنے لگے بلکہ اب ان کی دیدہ دلیری اور بدمعاشی اس حد تک بڑھ چکی تھی یہ قافلوں میں شامل عورتوں اور لڑکیوں کو بھی قید کر کے ان کو اپنی لونڈیاں اور باندیاں بنانے لگے طاقت کے نشے میں سرشار تھا اس نے خدائی کا دعوی کر دیا اس نے علاقے کے حاکموں کو خطوط روانہ کر دیے جس میں اس نے دعوی کیا کہ توبہ نعوذ باللہ خدا اس کی ذات میں علول کر گیا ہے لہذا اس کو خدا تسلیم کیا جائے اور اس کی مکمل اطاعت کے ساتھ ساتھ نذرانے پیش کیے جائیں ایسا ہی ایک خط اس نے خلیفہ مہدی کو روانہ کیا جسے پڑھ کر خلیفہ سخت تیش میں آ گیا اس کو اپنی لاپرواہی کا احساس ہوا اور اس نے جوابا اپنی فوج اس فتنے کی سرکوبی کے لیے روانہ کر دی خلیفہ مہدی نے اسے ایک معمولی آدمی سمجھا اور اس کے لیے فوج کے چند دستے روانہ کیے یہ خلیفہ کی بہت بڑی بھول تھی ابن مکنہ فوج نے خلیفہ کی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس شکست کے بعد خلیفہ مہدی نے باقاعدہ مکمل تیاری کے ساتھ اپنے وزیر معاویہ بن عبداللہ کی سرپرستی میں ایک لشکر اس فتنے کی سرکوبی کے لیے تیار کیا۔ لیکن مقنا کی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی۔ یہ لشکر بھی ناکام ہو گیا۔ اب خلیفہ نے معاویہ بن عبداللہ کی مدد کے لیے مزید بھرپور اور تازہ دم کمک بھیجی۔ اس کمک کے پہنچنے کے بعد اسلامی فوج نے دوبارہ مقنا کے قلعے پر حملہ کیا۔ اور کافی کے بعد معاویہ بن عبداللہ قلعے کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا اپنی شکست دیکھ کر ابن مکنا نے قلعہ کو آگ لگا دی اور اپنے پیروکاروں کو اس میں کودنے کا کہا اور خود قلعہ سے فرار ہونے کی کوشش کی یہاں تاریخ کا اختلاف ہے بعض جگہ مورخین نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کو زہر دے دیا تھا بہرحال قلعے سے فرار ہونے کی ناکام کوشش میں وہ پکڑا گیا حکیم مکنا کی موت کے متعلق بعض مختلف روایتیں ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو گئے اور انہوں نے مقنا کو قتل کیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نے پہلے اپنے تمام رفقاء اور رشتہ داروں کو زہر پلایا اور پھر خود بھی زہر پی لیا ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ایک گھڑی میں آگ جلوائی اور اپنے متعدد کو جمع کر کے کہا کہ جو لوگ میرے ساتھ فردوس بری میں رہنا چاہتے ہیں وہ اس آگ میں میرے ساتھ کود جائیں چنانچہ بہت سے لوگ اس آگ میں کود گئے ان میں حکیم مقنا بھی تھا اس کے کی ایک عورت جو اس قلعے میں بچ گئی تھی اس کے کہنے کے مطابق مقنا نے ایک بڑی دعوت کی جس میں اس کے خاندان کے تمام افراد بیویاں دونڈیاں کنیزیں اور قریبی رفقاء شامل تھے سب کو کھانے میں زہر کھلا دیا اس کے بعد اس نے آگ کا ایک گھڑا روشن کر کے اپنا نقاب اتارا اور سر کے بل اس الاؤ میں خود کو جھونک دیا اس عورت کا کہنا تھا کہ اس نے پہلی بار مقنا کو بغیر نقاب کے دیکھا تھا اس کا انتہائی بدنما اور گھناؤنا تھا اس کے سپاٹ گلے سڑے چہرے سے ناک اور ہونٹ گل کر گر چکے تھے اس کی کچھ انگلیاں بھی جھڑ چکی تھیں الیاس ستابوری نے اپنے ناول چاند کا خدام مکنا خراسانی کے واقعات بڑے بہترین انداز میں بیان کیے ہیں مکنا کے بنائے چاند کے متعلق دور جدید میں ماہرین مختلف پیش کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ اس نے پارے اور چاندی کے عمل غم سے کوئی تیار کیا تھا جو چاند کی روشنی کو کئی گنا زیادہ روشنی منعقد کرتا تھا کچھ کہتے ہیں کہ نے کوئی ایسا مکان کی آلہ تیار کیا تھا جو اس کورے کو بہت بلندی پر لے جاتا۔ وغیرہ وغیرہ لیکن عام خیال یہی ہے کہ کچھ علم کیمیہ کے ساتھ ساتھ شاہ نقشب کے اس چاند میں مکنا کی جادوگری شبدے بازی اور نظر بندی کا کمال بھی تھا۔ چاند کا یہ خدا آٹھ سال لوگوں میں اپنی چھوٹی خدائی کے دعوے کرتا رہا۔ لیکن بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔ ابن مکنا کی موت کے بعد اس کا چڑھایا ہوا چاند چند دنوں تک آسمان کو روشن کرتا رہا لیکن ایک دن چاہے نقشب میں کر ٹوٹ گیا اور ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
Leave a Comment