اس کی خوبصورتی کی خبر دور دور تک پھیل گئی اور وہ اس خوبصورت لڑکی کو ایک بار دیکھنے کا موقع ڈھونڈنے لگا صاحب کے گھر گیا۔ وغیرہ دینے کے بہانے مولوی کی بیٹی کا دیدار ہو جائے گا اور اس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا جب امام صاحب مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے تو اس نے دروازے پر دستک دی اور مولوی کی بیٹی کی آواز آئی کون اس نے کہا کہ اس کے پاس کچھ سامان ہے جو چوہدری صاحب نے بھیجا ہے وہ لے لیں لڑکی نے کہا آپ دروازے پر رکھ دیں میں اٹھا لوں گی اس نے سامان رکھا اور وہی کرنے لگا۔ جب لڑکی کو معلوم ہوا کہ سامان رکھنے والا چلا گیا ہے تو اس نے سامان اٹھانے کے لیے دروازہ کھولا تو لڑکے نے اسے نہ صرف دیکھا بلکہ اس سے پیار کیا اور اپنا دل اسے دے دیا۔ اور اصرار کیا کہ اس سے شادی کرنی ہے تو چودھری صاحب اس رشتے کے حق میں نہیں تھے۔ مولوی سے کہا کہ ان کا بیٹا شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا ہے اور یہ سب برا ہے، میں اپنے بیٹے کے لیے آپ کی بیٹی کا نکاح مانگنے آیا ہوں۔ اگر تم نے انکار کیا تو میں خوشی سے چلا جاؤں گا۔ یہ مت سمجھو کہ میرا غصہ تمہاری زندگی کا کوئی حل لے آئے گا۔ اب ظاہر ہے کہ مولوی صاحب کو انکار کرنا پڑا۔ چودھری صاحب گھر آئے اور بیٹے سے کہا کہ مولوی نے انکار کر دیا ہے اور اب وہ اس گلی سے کبھی نہ گزرے۔ لڑکے کو بہت غصہ آیا کہ اتنی دولت، عزت اور شہرت کے باوجود مولوی اسے کیسے ٹھکرا سکتا ہے۔ میں بدلہ ضرور لوں گا اور اس نے دل ہی دل میں بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا دوسری طرف مولوی صاحب کی بیٹی بیمار ہو گئی اور پہلے تو وہ گھریلو علاج سے اس کا علاج کرتا رہا لیکن جب اس کی بیٹی کا پیٹ پھولنے لگا اس وقت گاؤں کے مقامی ڈاکٹر سے مشورہ کیا، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ دستیاب نہیں تھے، اس لیے حکیم صاحب نے لڑکی کی نبض چیک کی، پیٹ کے درد کی شدت چیک کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کی بیٹی ہے، مولوی میں افراتفری مچ گئی۔ صاحب کا گھر تو قیامت سا لگ رہا تھا، مولوی نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ اس نے کس سے منہ کالا کرایا ہے، کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے، ایک دو بار اسے مارنے کی کوشش کی لیکن ماں۔ درمیان میں آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ اس کی بیٹی بے قصور ہے اور اس کی بیٹی کو بھی اللہ نے اس امتحان میں ڈالا ہے کہ اب کوئی اسے اس جرم سے چھڑا لے گا۔ دو تین بار ڈاکٹر کے پاس گیا اور تھوڑی رقم دی تو ڈاکٹر نے سارا قصہ چوہدری کو سنایا اور مولوی کے بیٹے نے گاؤں کے میراسی کو کچھ پیسے دے کر بتا دیا۔ پورے گاؤں میں کہ مولوی کی بیٹی نے کہا کہ حملہ ہوا ہے۔ گاؤں کی عورتیں مولوی کے گھر آکر پوچھنے لگیں کہ ایسا کیا ہوا کہ بیٹی کو یہ جرم کرنا پڑا؟ اس نے اس کی شادی کیوں نہیں کرائی جس کے ساتھ اس نے اپنی بے عزتی کی ہے؟ جو کچھ بھی ہوا، گاؤں کی پنچایت نے مولوی صاحب سے امامت واپس لے لی اور انہیں کسی اور گاؤں میں اپنے معاملات طے کرنے کے لیے والدہ کو وقت دے دیا۔گاؤں والوں نے بھی اپنی بیٹیوں کو مولوی کی بیٹی کے پاس بھیجنا چھوڑ دیا۔ مولوی ہر طرف سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن وہ پریشان حال بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ مولوی صاحب اندر آتے ہی اپنی پریشانی میں کچھ سوچنے لگے۔ لڑکا سمجھ گیا اور اپنا تعارف کرایا کہ میں آپ کا شاگرد ہوں اور بچپن میں آپ سے قرآن پاک پڑھ چکا ہوں۔ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور اسی گاؤں کا ہوں۔ مولوی صاحب نے اسے پہچان لیا اور اندر لے آئے۔ انہوں نے اپنے دورے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ آپ کی بیٹی کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ مسجد نے بتایا کہ وہ اپنا کورس مکمل کر کے شہر سے واپس آیا ہے۔ اور وہ اسے گاؤں میں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ پہنچتا ہے، اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے۔ہوا تو اسے یقین نہیں آیا کہ یہ واقعہ سچ ہے اور وہ اس کا راز مولوی صاحب کو بھی کچھ امید لگنے لگی، کچھ تفصیل پوچھی اور پھر کچھ سوچ کر مولوی صاحب سے بکری اور کتے کا بندوبست کرنے کو کہا جب کہ مولوی صاحب نے کھانے سے انکار کر دیا۔ اسے بھوکا رہنے کے لیے اس کی نصیحت پر عمل کرنا پڑا اور اگر وہ ایسا کرے تو پھر ڈوبنے والے کو سہارا دینے کے لیے تنکے کیوں دیے جائیں گے؟ رات تک سارا انتظام ہو گیا، لڑکے یعنی حکیم نے گاؤں کی کچھ عورتوں کو بھی بلایا۔ اور بکرے کا گوشت پکانے کو کہا۔ جب گوشت پک گیا تو لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ وہ اپنے دل کے مطابق گوشت کھا لے۔ لڑکی بھی صبح سے بھوکی تھی، اس نے دل کی خوشی میں گوشت کھایا۔ لڑکی نے گوشت کھایا تو محلے کے کچھ ماجد لوگ بھی مولوی کے گھر کے باہر جمع ہونے لگے۔ وہ لڑکا مولوی صاحب کی بیٹی کو بلایا اور اسے دوسرے کمرے میں لے گیا جہاں وہ پہلے ہی تیار کر چکا تھا اس نے لڑکی کو بتایا کہ اس نے جو گوشت کھایا ہے وہ اس کتے کا ہے پھر کیا ہوا کہ لڑکی کو الٹیاں ہونے لگیں۔ وہ کھانا کھا کر باہر آنے لگی تو اس کے پیٹ میں سے ایک ہی قے نکلی جسے محلے کے تمام لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اسے کچھ سکون محسوس ہونے لگا پسند تو لڑکا کہنے لگا کہ اس لڑکی نے کسی ندی یا جھیل کا پانی پیا ہے۔ اس وقت مینڈک کا چھوٹا بچہ اپنی چھلنی سے ہوتا ہوا پیٹ تک پہنچ گیا۔ مینڈک کا بچہ بڑا ہوا تو اسے پریشانی ہونے لگی۔ اور انفیکشن کی وجہ سے اس کا پیٹ بھی پھولنے لگا تھا، گاؤں کے ہر شخص نے اس لڑکے کی عقلمندی دیکھ لی تھی۔ اور اس لڑکی کی پاکیزگی بھی سب پر عیاں ہو گئی۔ لڑکی کی شادی کی بنا پر مولوی صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ نوجوان سے کر دیا۔ اور یوں وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرنے لگے۔ محترم عزیز دوستو کہانی کا حاصل سبق یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ تم کبھی بھی جو کچھ آپ سنتے ہیں اس پر یقین نہ کریں جب تک کہ آپ اس کی تحقیق نہ کریں۔ آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو سنتے ہیں اسے مان لیتے ہیں۔ معاملے کا بھی علم نہیں۔ اس کی حقیقت جاننے کی کوشش نہ کریں۔ اس چیز کی تصدیق نہ کریں۔ جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے رشتوں میں دراڑ آ جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں میں دشمنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ، میں اجازت چاہتا ہوں، تب تک اللہ آپ سب کو خوش رکھے
Leave a Comment