سات سو سال پہلے لکھی گئی ابن خلدون کی تحریر جو آج ہمارے ملک کا منظر نامہ ہے آئیے ملاحظہ کرتے ہیں کہ ابن خلدون نے سات سو سال پہلے کیا لکھا تھا جو آج ہمارے ملک کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے فاتح کی وردی اور دوسرے پر سجے تغمے طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات اعزازی نشانات اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے اس کے تمام حالات رسم و رواج اس کے ماضی کو اپنی تعریف سے جوڑ لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال بھارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔ محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔ جب ریاست ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ان میں نجوم بھکاری منافق ڈھونگ رچانے والے چغل خور کھجور کی گھٹلیوں کے قاری درہم و دینار کے بد فتوی فروش فقیہ جھوٹے راوی ناگوار آواز والے متکبر گلوکار بد اڑانے والے شاعر غنڈے ڈھول بجانے والے خود ساختہ حق اور سچ کے دعویدار زائچے بنانے والے خوشامدی تنز اور ہجو کرنے والے موقع پرست سیاستدانوں اور افواہیں والے مسافروں کی بہتات ہو جاتی ہے ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا جس میں جو سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہو جاتا ہے ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں تو ہر سود دہشت پھیلتی ہے اور لوگ میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں.
عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں. بانجھ بحثیں طویل پکڑتی ہیں. دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے. باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے.
مشکوک چہرے نظر آتے ہیں اور مل نثار چہرے سے تا سے غائب ہو جاتے ہیں. حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں.
عقل مند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے. لوگوں کی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور جماعت گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں قوم پرستی حب الوطنی عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں بالآخر حالانکہ اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ہجرت ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے لوگوں کا گل ساز و سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں وطن یادوں میں اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں ابن خل خدا آپ پر رحم کرے کیا آپ ہمارے مستقبل کی جاسوسی کر رہے تھے آپ سات صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے جو ہم آج تک دیکھنے سے قاصر ہیں قاصر ہیں
Leave a Comment