ات کرتے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان چاند پر جا رہا ہے احساس کمتری کے شکار ہم وطنوں کے لیے اطلاع عرض ہے کہ پاکستانی خلائی پروگرام بھارت سے پہلے شروع ہوا تھا۔ پاکستان رہبر اول کے نام سے سات جون انیس سو باسٹھ کو ہی ایک راکٹ خلاء میں بھیج کر یہ کارنامہ سرانجام دینے والا دنیا کا آٹھواں اور ایشیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا۔ سات جون انیس سو باسٹھ کو پاکستان نے بلوچستان کے علاقے سن میانی سے رہبر اول نامی راکٹ ڈاکہ جس نے ایک سو تیس کلو میٹر تک کی بلندی حاصل کی۔ اس کے بعد ان دونوں راکٹوں نے بالائی قرعہ ہوائی میں ہوا کے دباؤ اور ساخت کے بارے میں ناسا کو اہم معلومات فراہم کی اس کے علاوہ اس پروگرام نے بادلوں کی تشکیل سمندری طوفانوں اور بحیرہ عرب میں موسم کے بارے میں قیمتی معلومات اکٹھی کی اس کے بعد پاکستان نے اگلے دس سال میں دو سو کے قریب راکٹ خلا میں بھیجے انیس سو تہتر میں پروگرام میں حصہ لینے والے تین خلا بازوں نے بھی پاکستان کا دورہ کیا جن کا بڑا استقبال ہوا تھا جس چین کے اشتراک سے یہ پروگرام روانہ کیا گیا اس نے چالیس برس کی قلیل مدت میں خود کو عالمی طاقت کے طور پر منوایا ہے ضرورت صرف ترجیحات اور ایمانداری سے درست سمت محنت کرنے کی ہے کچھ دوستوں کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ پروگرام تین چار برس قبل روانہ کیا جاتا تو سب اچھا تھا آئیے بات کرتے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان چاند پر جا رہا ہے جی بالکل پاکستان چاند پر جا رہا ہے پاکستان کا کردہ سیٹلائٹ چینی پروگرام کے ساتھ چینی راکٹ کے ذریعے چاند کے مدار تک پہنچے گا اور تین سے چھ ماہ تک مدار کے گرد چکر لگا کر چاند کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا لے کر پاکستان میں قائم زمینی اسٹیشن تک بھیجے گا کیوبک سیٹلائٹ کا وزن بہت کم ہے تو اس کی اہمیت آخر کیا ہے اول یہ کیوبک نہیں کیوب سیٹلائٹ ہے جس کا نام آئی کیوب کمر ہے کیوب سیٹلائٹ چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جن کا وزن چند کلو گرام ہوتا ہے سماجی میڈیا پر جو لوگ راکٹ کے وزن سے سیٹلائٹ کے وزن کا موازنہ کر رہے ہیں وہ بالکل غلط ہیں یہ سچ ہے کہ کیوب سیٹلائٹ کا وزن محض چھ کلو گرام ہے لیکن راکٹ کے وزن سے اس کا موازنہ نہیں بنتا راکٹ میں فیول اور دیگر میکنیزمز کا وزن زیادہ ہوتا ہے اس لیے اپنے ذاتی راکٹ کے ذریعے خلا میں مشن بھیجنا ہمیشہ مہنگا سودا ہوتا ہے جسے پاکستان نے چین کے ذریعے طے کیا پاکستانی سیٹلائٹ میں آخر کیا خاص ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے آئی کیوب کمر کو تیار کرنے کے لیے پاکستان کو دو سال لگے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کی جانب سے تیار کردہ اس سیٹلائٹ کو بنانے میں الیکٹریکل میٹیریل سائنس ایوینیکس ایرو سپیس میکینکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے طلباء اور ماہرین نے محنت کی اس میں علیحدہ ہونے والے میکینزم سٹار سینسر ماؤنٹنگ بریکٹ اور کمیونیکیشن سسٹم نصب کیا گیا ہے اس کی مدد سے چاند کی تصاویر بھیجی جا سکیں گی جو مستقبل میں مزید تحقیق اور تعلیم کے کام آ سکیں گے اس پروگرام میں پاکستان کے لیے کیا خاص بات ہے دیکھیں اب تک دنیا کے چھ ممالک ایسے ہیں جو براہ راست اپنے خرچ یعنی اپنے راکٹس کی مدد سے چاند یا اس کے مدار تک جا سکے ہیں یہ ممالک امریکہ روس چین بھارت جاپان اور یورپی یونین ہیں جبکہ ان کے جنوبی کوریا اور اٹلی وہ ممالک ہیں جو امریکی اور چینی ڈاکٹروں کے سہارے چاند تک پہنچے ہیں اور اب پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو اس فہرست میں شامل ہوا ہے یوں یہ بات پاکستان کے لیے اعزاز ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے آٹھ ممالک نے اس پروگرام کے ذریعے اپنا سیٹلائٹ مفت بھجوانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ان میں پاکستان کا نام نکلا اور اس کی وجہ آئی ایس ٹی کے تیار کردہ کا سب سے بہتر ہونا بنی کیا اس کا موازنہ بھارتی چندریان سے کیا جا سکتا ہے ہرگز نہیں بھارت نے اپنے کم خرچ ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند پر بھیجا جبکہ پاکستان چینی راکٹ کے سہارے چاند پر جا رہا ہے ویسے بھی دونوں کا تکنیکی اور دیگر موازنہ نہیں بنتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس کو بے کار سمجھیں ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ دو انتہاؤں پر سوچتے ہیں یا تو براہ راست خود کو چاند پر سمجھ رہے ہیں یا پھر اس پروگرام اہمیت سے ہی سرے سے انکار کر رہے ہیں جبکہ بات ان انتہاؤں سے ہٹ کر ہے ماضی میں سپارکو سے کہیں آگے تھا تو اب ڈھول بجانے کی کیا ضرورت کب تک ماضی کو پیٹتے رہیں گے آخر کہیں سے تو ابتدا کرنی ہے آم سٹرونگ نے چاند پر قدم رکھتے کہا تھا کہ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی بہت بڑی چھلانگ ہے پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا یہ چھوٹا سا کیوب سیٹلائٹ ایک بہت بڑے روشن دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے اس سے طالبان حقیق اور جستجو کی نئی راہیں کھلیں گی کیا اس پروگرام کی سماجی میڈیا پر اتنی تشہیر کی جانی چاہیے جی بلکل اس پروگرام کا تذکرہ پواڑی کا چاہت فتح علی خان لاہور دا پاوا پروگرام بڑھ گیا ویڈیو لنک وغیرہ وغیرہ جیسی فضولیات سے درجہ بہتر ہے پاکستان اور پاکستانی طلباء کی جانب سے بہت اچھا قدم ہے جتنی تحسین و ستائش کی جائے اتنی کم ہے اسے زیادہ سے زیادہ سماجی میڈیا پر بحث کریں کیا جانا چاہیے اور خود پر آج نہیں تو کل ہم انشاءاللہ اس قابل بھی ہوں گے کہ ہمارے اپنے خلائی مرکز سے روکٹ پرواز بھریں گے اور چاند پر موجود کالونیوں تک انسانوں کو لے کر جائیں گے اور وہاں سے آگے مریخ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا سیاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں آخر ہزار میل لمبے سفر کی شروعات بھی گھر سے اٹھائے گئے پہلے اور چھوٹے سے قدم سے ہی ہوتی ہے اس لیے فخر کیجئے
Leave a Comment