قرآن مجید میں تین ایسی ہستیوں کا ذکر آتا ہے جو نبی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالی نے ان کا ذکر اچھے الفاظ میں فرمایا تھا ان ہستیوں میں حضرت لقمان بھی شامل ہیں ہم انہیں عام زبان میں حکیم لقمان کہتے ہیں اللہ تعالی نے انہیں حکمت دانائی دانشمندی اور علم سے نوازا تھا حکیم لقمان اپنی جوانی میں غلام تھے اور کسی مالدار شخص کی خدمت کرتے تھے آپ نے اس شخص کی اس قدر خدمت کی کہ وہ شخص آپ کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور وہ وقت تک کوئی چیز نہ کھاتا نہ پیتا اور نہ استعمال کرتا جب تک وہ چیز حضرت لقمان چکھ نہیں لیتے تھے ایک دن آقا کے سامنے خربوزہ رکھا گیا آقا نے حضرت لقمان کو آواز دی پاس بلوایا چھری سے خربوزہ کاٹا اور آپ کے منہ میں ڈال دیا حضرت لقمان بڑے مزے اور بڑی خوشی سے خربوزہ کھانے لگے آقا نے جب انہیں خوش دیکھا تو وہ خربوزہ کاٹ کاٹ کر انہیں کھلاتا رہا اور حضرت لقمان مزے لے لے کر کھاتے رہے جب خربوزے ٹکڑا بچ گیا تو آقا نے اس ٹکڑے کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ حضرت لقمان کے منہ میں دے دیا اور دوسرا ٹکڑا اپنے منہ میں ڈال دیا جونہی خربوزہ آقا کے منہ میں گیا اس نے فورا باہر اگل دیا کیونکہ وہ خربوزہ زہر جتنا کڑوا تھا آقا حضرت لقمان کے صبر پر حیران رہ گیا اور اس نے اس سے پوچھا تم یہ کڑوا خربوزہ مزے لے لے کر کیوں کھاتے رہے تو مجھے بتا دیتے میں یہ تمہیں نہ کھلاتا حضرت مسکرائے اور ادب سے جواب دیا۔ جناب اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ آپ کی خوشی تھی۔ آپ نے بڑی خوشی کے ساتھ مجھے خربوزہ کھلانا شروع کیا تھا۔ چنانچہ میرے ضمیر نے مجھے شکایت کر کے تمہاری خوشی کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ دوسرا میں نے کبھی دیکھا ہے۔ کے ہاتھ سے ہزاروں نعمتیں کھائی ہیں آج آپ کے ہاتھ سے ایک کڑوی چیز مل گئی تو اسے کھانے میں کیا حرج ہے جہاں اتنی نعمت ہے وہاں ایک زحمت بھی سہی حکیم لقمان بڑی مجلس میں فرما رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی شخص مجلس میں داخل ہوا اور ان کے قریب جا کر گویا ہوا کیا تم بنی حساس کے غلام نہیں ہو فرمایا ہاں اس نے پھر سوال کیا کیا تم میرے ساتھ بکریاں نہیں چرایا کرتے تھے حکیم لقمان نے اسے غور سے دیکھا اور پھر اس نے کہا کہ تم نہیں رہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس نے کہا ہاں یہ سچ ہے۔ لیکن بتاؤ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا پھر کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آپ کی محفل میں آتے ہیں اور آپ کی باتیں بڑی دلچسپی اور لطیفے سنتے ہیں۔ حضرت لقمان نے اس شخص کو پیار سے کہا کہ جو کچھ میں کہوں تم بھی اس پر عمل کرنا شروع کر دو۔ پھر تم بھی میرے جیسے ہو جاؤ گے۔ آنکھوں سے حرام چیزیں نہ دیکھو۔ زبان بے ہودہ باتوں سے روک لو۔ مال حلال کر لو۔ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو۔ اپنی زبان سے سچ بتائیں۔ اپنے وعدے رکھو مہمان کی عزت کرو پڑوسی کا خیال رکھو بیکار کاموں کو چھوڑ دو بس یہی عادات جن کی وجہ سے مجھے بزرگی عطا فرمائی گئی ہے حضرت خالد ربی فرماتے ہیں کہ ایک دن ان کے مالک نے فرمائش کی کہ اے لقمان ہمارے لیے ایک بکری ذبح کر دو اور اس کا سب سے اچھا عضو ہمارے سامنے پیش کرو آپ نے بکری ذبح کی اور اس کا دل اور زبان نکال کر اپنے مالک کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں بکری سب سے اچھے اعضا ہیں ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ مالک نے پھر فرمائش کر دی کہ اے لقمان ہمارے لیے ایک بکری ذبح کر دو اور اس کا سب سے برا عضو لے کر آؤ آپ نے بکری ذبح کی اور دل اور زبان نکال کر ان کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے برے اعضاء ہیں مالک کو بڑا تعجب ہوا بولا اے لقمان جب میں نے عمدہ اعضاء کی فرمائش کی تو تم دل اور زبان لے آئے اور اب سب سے برے اعضا کہا تو تم پھر یہی دونوں چیزیں لے آئے یہ کیا بات ہوئی آپ نے جواب دیا اے میرے مہربانہ کا اگر یہ دونوں اعضاء درست ہیں تو ان سے زیادہ بہتر کوئی عضو نہیں اور اگر یہ دونوں بگڑ جائیں تو ان سے برا کوئی عضو نہیں سورہ لقمان میں اللہ تعالی حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت کا ذکر فرما رہا ہے جس کی تفصیل آیت تیرہ سے انیس کے درمیان موجود ہیں اگرچہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھی لیکن ہر شخص فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی موت سے پہلے اپنے ورثے کے متعلق تمام معلومات اپنی اولاد کو فراہم کر دے۔ چنانچہ حضرت لقمان نے بھی یہ ضروری سمجھا کہ انتقال سے پہلے اپنے غور و فکر اور عقل و دانش کا نچوڑ اپنی اولاد کو منتقل کر دیں۔ چنانچہ فرمایا کہ جان بدر اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ یہاں پر اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی اور ان کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا۔ بالخصوص ماں کے والے سے بیٹا اگر کوئی عمل رائے کے دانے کے برابر بھی ہو اور زمین آسمان یا چٹانوں میں کہیں بھی چھپا ہو اللہ اسے لا موجود کر دے گا کچھ شک نہیں کہ وہ باریک سے باریک چیز کو دیکھ سکتا ہے اور ہر شے سے باخبر ہے بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تاکید اور برے کاموں سے روکتے رہنا مصیبت کے وقت صبر سے کام لینا اور عزرائے غرور لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین پر نہ چلنا اللہ تعالی شیخی خورے اور مغرور شخص کو پسند نہیں فرماتا اپنی چال کو اعتدال میں رکھنا بحث و تمہیس کے وقت اپنی آواز کو پست رکھنا یقینا سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے حضرت لقمان نے ایک ہزار برس کی عمر پائی حضرت داؤد علیہ السلام کی بحثت سے پہلے آپ بنی اسرائیل کے مفتی تھے حضرت داؤد علیہ السلام کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے فتوی دینا ترک کر دیا تھا حضرت عوام الناس کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے تفسیر فتح الرحمان کے مطابق آپ کی قبر رملہ کے قریب مقام سرفند میں ہے حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر رملہ میں مسجد اور بازار کے درمیان ہے اس جگہ ستر انبیاء بھی مدفون ہیں جنہیں یہودیوں نے آپ کے بعد بیت المقدس سے دیا تھا اور ان لوگوں نے بھوک پیاس کا شکار ہو کر وفا حاصل کی تھی۔ آپ کا ایک بلند مقصد ہے۔ آپ کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں ۔
Leave a Comment