ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک دور صحرا میں ایک پرانا گاؤں تھا گاؤں کے بازار میں ایک درزی کی دکان تھی درزی کا اکلوتا بیٹا الا دین تھا جو ہر وقت بازار میں اپنے بندر کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا سب کچھ بہت ہنسی خوشی گزر رہا تھا کہ جب الا دین سولہ سال کا ہوا تو اس کا والد انتقال کر گیا پھر گھر کی ساری زمہ داری الا دین پر آ گئی اور الہ دین نے اپنے باپ کی درزی کی دکان سنبھالی ایک روز الہ دین کی دکان پر ایک اجنبی شخص آیا اس اجنبی شخص آتے ہی الہ دین سے اس کے باپ کے انتقال کا افسوس کیا الہ دین نے کہا معاف کیجئے میں نے آپ کو پہچانا نہیں اس پر اجنبی شخص نے اسے بتایا کہ وہ اس کا چچا ہے جو کام کے غرض سے باہر گیا تھا الہ دین فورا بولا میں نے آپ کا ذکر اپنے والد سے سنا تھا پھر چچا نے الہ دین کو بتایا کہ میں تمہیں خزانے کا پتہ بتانے آیا ہوں الہ دین حیرانگی سے بولا خزانہ چچا نے کہا کہ ہاں خزانہ لیکن اس کے لیے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا الہ دین جلد ہو گیا اور وہ دونوں اونٹ پر بیٹھ کر صحرا میں چل پڑے چلتے چلتے وہ پہاڑوں میں پہنچ گئے پھر چچا نے الہ دین سے کہا جاؤ کچھ لکڑیاں لے کر آؤ الہ دین لکڑیاں لایا اس نے آگ جلائی اور پھر چچا اس پر کچھ جادو کرنے لگا اچانک زمین لرزنے لگی اور زمین پھٹی اور اس میں سے ایک سفید پتھر باہر آ گیا جس پر انگوٹھی رکھی ہوئی تھی الہ دین یہ سب دیکھ کر گھبرا گیا اور کہنے لگا چچا یہ سب کیا ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے چچا نے کہا گھبراؤ اس پتھر کے نیچے خزانہ چھپا ہے وہ تمہیں تب ملے گا جب تم وہ سب کرو گے جو میں تم کو کہوں گا پھر چچا نے کہا اگر تم خزانہ چاہتے ہو تو پہلے یہ انگوٹھی پہن لو الا دین نے جیسے ہی انگوٹھی پہنی وہ سفید پتھر زمین سے سرکا تو زمین کے اندر راستہ بن گیا اس کے بعد چچا نے بتایا جیسے ہی تم زمین میں لگی اس سیڑھیوں سے نیچے جاؤ گے تو تمہیں ایک باغ نظر آئے گا تم بغیر کسی چیز کو چھوئے آگے چلتے رہنا جب تک تم ایک چرا کے پاس نہ پہنچاؤ جیسے ہی تم اس چراغ کے پاس پہنچو اس میں موجود تیل نکال دینا اور چراغ میرے پاس لے آنا الہ دین سیڑھیوں سے نیچے اترا تو اس کو ایک بہت خوبصورت پھلوں کا باغ نظر آیا وہ اتنے خوبصورت پھل دیکھ کر رہ نہ سکا اور چچا کے منع کرنے کے باوجود پھل توڑنے لگا اس نے ایک سیب توڑا اور توڑتے ہی سیب ایک ہیرے میں تبدیل ہو گیا پھر الہ دین نے ایک انگور کا گچھا توڑا تو وہ موتیوں میں تبدیل ہو گیا الہ دین یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے ایک تھیلے میں تمام جواہرات بھر لیے پھر الہ دین نے چراغ تلاش کیا اس میں سے تیل نکالا اور واپسی کی طرف چل پڑا جب سیڑھیوں سے الا دین واپس چڑھنے لگا تو وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے سیڑھیاں نہیں چڑھ پا رہا تھا اس نے چچا کو مدد کے لیے پکارا جب چچا نے اوپر سے الا دین کو چباہرات سے بھرے تھیلے کے ساتھ دیکھا تو غصے سے آگ بگولہ ہو گیا کہنے لگا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ باغ سے کوئی پھل مت توڑنا لیکن تم نے توڑا لاؤ چراغ مجھے دو الا دین کو چچا کے بدلے ہوئے رویے پر بڑا تعجب ہوا چراغ پکڑانے سے انکار کر دیا.
جادوگر چچا کو غصہ آیا اس نے جادو کر کے زمین کا راستہ دوبارہ بند کر دیا. الہ دین مایوسی کے عالم میں وہیں بیٹھ گیا اور سوچنے لگا مجھے اتنی جلدی اس شخص پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا. پھر الہ دین کافی دن تک اس غار میں روتا رہا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا. الہ دین نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کاش کوئی مجھے میرے گھر لے جاتا.
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی انگوٹھی پر ہاتھ لگایا جادوئی انگوٹھی نے اسے جواہرات اور چراغ سمیت اس کے گھر پہنچا دیا الا دین کی ماں جو کافی دنوں سے اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی تھی روتے ہوئے کہنے لگی تم اتنے دنوں سے کہاں تھے میں نے تمہیں ہر جگہ تلاش کیا لیکن تم کہیں نہیں ملے الا دین نے سارا واقعہ اپنی والدہ کو بتایا اور وہ سارا خزانہ بھی دکھایا جو اس نے وہاں سے اکٹھا کیا تھا الہ دین کی والدہ نے جب چراغ دیکھا تو کہا یہ کافی پرانا اور گندا ہو رہا ہے پھر انہوں نے اس کو صاف کرنے کے لیے چراغ کو رگڑا چراغ رگڑتے ہی چراغ میں سے جن نکل آیا الہ دین اور اس کی والدہ جن دیکھ کر ڈر گئے جن نے کہا گھبراؤ نہیں اور کہا میں آپ کا غلام ہوں آپ اپنی خواہش کا اظہار کریں میں آپ کی خواہش پوری کروں گا انہوں نے سب سے پہلے جن کو کھانا لانے کا حکم دیا حکم دیتے ہی جن نے سونے اور چاندی کے برتنوں سے میں اس کو سجا دیا اور ان میں من پسند کے کھانے آنے لگے الہ دین اور اس کی والدہ نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا پھر الا دین کی نے ان سونے اور چاندی کے پلیٹوں کو بازار جا کر بیچ دیا اور گھر کی ضرورت کی اشیاء لے آئے پھر ایک روز جب الا دین اور اس کا بندر بازار میں کھیل رہے تھے اتنے میں بازار سے بادشاہ کی بیٹی شہزادی کا گزر ہوا الا دین پہلے ہی نظر میں شہزادی کو دل دے بیٹھا اور جلدی سے گھر کی طرف بھاگا اور اپنی ماں کو شہزادی کے ساتھ شادی کی خواہش کرنے لگا الہ دین کی یہ بات سن کر اس کی والدہ ہنسنے لگی اور کہنے لگی کیا گیا ہے تمہیں بادشاہ کو یہ بات پتا چلی تو وہ دربانوں سے کہہ کر تمہیں خوب مار پڑوائے گا الہ دین نے اپنی والدہ سے کہا مجھے اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں بس آپ کچھ ہیرے جواہرات لے کر بادشاہ کے پاس چلی جائیں اور ان کی بیٹی کا ہاتھ میرے لیے مانگیں الہ دین کی والدہ نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے ویسا ہی کیا جیسا الا دین نے کہا تھا جب اس کی والدہ مل مل کے کپڑے میں جواہرات لپیٹے وہاں پہنچ گئی دربانوں نے اسے بادشاہ کے دربار میں جانے سے روک لیا لیکن بادشاہ کو اس کے ہاتھ میں مل مل کی تھیلی دیکھ کر کافی تجسس ہوا اور اس نے دربانوں کو خاتون کو اندر آنے دیا جائے اس پر الہ دین کی ماں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے مانگنے آئی ہوں اور یہ ہیرے جواہرات تحفے کے طور پر لائی ہوں بادشاہ نے کہا یہ ہیرے جواہرات تو بہت قیمتی لگ رہے ہیں اگر تمہارا بیٹا میری بیٹی سے شادی کی خواہش رکھتا ہے تو اسے کہنا ایسے بیش قیمتی جواہرات چالیس سونے کے تھالوں میں لاد کر چالیس غلاموں کے ساتھ میرے پاس لائے تو میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں گا پھر کی ماں نے گھر جا کر الہ دین کو بادشاہ کی شرط بتائی تو الہ دین نے کہا بس اتنی سی بات اس
Leave a Comment