خلیفہ ہارون رشید ایک شام جعفر اور مسرور کے ساتھ لباس تبدیل کیے ہوئے حالات معلوم کرنے کے غرض سے پھر رہا تھا ایک بوڑھے ماہی گیئر کو دیکھا کہ بیٹھا ہوا قسمت کا گلہ کر رہا ہے خلیفہ نے جعفر کو اشارہ کیا کہ حال دریافت کرو جعفر بوڑھے کے پاس گیا اور بڑی ہمدردی سے پوچھا کہ بابا کیا بات ہے تقدیر کا شکوہ کیوں کر رہے ہو بوڑھا بولا میں ایک عیال دار ماہی گیئر ہوں آج تمام دن دریا میں جال ڈالتا رہا لیکن ایک بھی مچھلی میرے ہاتھ نہیں آئی اور گھر والوں کے کچھ نہیں تو خلیفہ نے کہا دریا پر میرے ہمراہ چلو اور اپنا جال ڈالو جو کچھ نکلے گا میں اسے سو دینار میں خرید لوں گا بوڑھا بہت خوش ہوا اور اسی وقت جال کاندھے پر ڈال کر چلنے کے لیے تیار ہوگیا دریا پر پہنچ کر ماہی گیر نے جال پھینکا اتفاقا جال میں بھاری صندوق آگیا خلیفہ نے حسب وعدہ سو دینار عطا فرما دیے اور صندوق لے کر محل میں واپس آیا صندوق کھولا تو اس میں سے جوان عورت کے ٹکڑے کی لاش برآمد ہوئی خلیفہ رشید نے جعفر کی طرف دیکھ کر کہا یہ کیا ماجرا ہے اتنا بڑا ظلم میرے قدموں کے نیچے ہو جائے اور کسی کو خبر تک نہ ہو میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں اگر اس عرصے میں حالات معلوم نہ ہوئے اور قاتل نہ ملا تو تم قتل کیے جاؤ گے جعفر حیران و پریشان گھر واپس آیا وہ جانتا تھا کہ تین روز میں اس واقعے کا سراغ ملنا نا ممکن ہے اس واسطے اپنی زندگی سے ناامید ہو گیا اور گھر میں بیٹھ کر خداوند کریم کا ساز سے دعا کرنے لگا
تین دن کے بعد خلیفہ نے جعفر کے قتل کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اسباب قتل بھی مشہور کر دیا کہ دریا سے صندوق میں باندھے ایک عورت کی لاش پر آمد ہوئی اور اس کا قاتل نہیں ملا وزیر اعظم کو تین دن کی مہلت دی گئی تھی لیکن وہ تلاش کرنے میں ناکام ہو گیا چونکہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں مل سکا اس لیے آج جعفر اور وزیر قتل کیے جائیں گے جب جعفر کو مقتل میں لایا گیا تو ایک بوڑھا آدمی آگے بڑھا کہنے لگا قاتل میں ہوں لوگ جمع تھے جعفر اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا کہ صفوں کو چیرتا ہوا ایک نوجوان آیا اور بولا حضور آپ بھی بے قصور ہیں اور یہ بزرگ بھی حقیقت میں قاتل میں ہوں لوگ حیران و پریشان کے دو آدمی اقبال جرم کر رہے ہیں چنانچہ اس واقعے کی اطلاع خلیفہ ہارون الرشید کو مل گئی تو اس نے سب لوگوں کو دربار میں طلب کیا اور اس بوڑھے اور نوجوان سے اصل حالات دریافت کیے گئے نوجوان آدمی نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا حضور یہ بزرگ میرے چچا بھی ہیں اور میرے سسر بھی ہیں ان کی لڑکی یعنی اپنی بیوی کا قاتل میں ہوں واقعہ یہ ہے کہ میری بیوی مقتولہ بیمار تھی ایک حکیم صاحب نے اس کے لیے سیب تجویز کیا اور میں نے ہر چند سیب تلاش کیے لیکن بغداد میں اس وقت ایک بھی سیب نہ ملا ایک آدمی نے کہا کہ بصرے کے شاہی باغ میں آج کل سیب مل سکتے ہیں اور کہیں نہیں چنانچہ میں بصرے گیا اور تین خریدے اور لا کر اپنی بیوی کو دے دیے شام کو میں اپنی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ میرے سامنے سے ایک غلام گزرا جو سیب اچھالتا جا رہا تھا میں نے دیکھا اور پہچانا کہ یہ وہی سیب ہے جو میں بسرے سے لایا تھا میں نے اس کو بلایا اور دریافت کیا کہ یہاں تو سیب نہیں ملتے تم کہاں سے لائے ہو وہ کہنے لگا کہ میری معشوقہ نے دیا ہے میں کئی روز سے باہر گیا ہوا تھا
آج واپس آیا تو معلوم ہوا یہ وہ بیمار ہے میں مزاج پرسی کو گیا چورانجے اس نے یہ مجھے دے دیا جو اس کا بے وقوف خاوند بصرے سے اس کے لیے لایا تھا غلام کی باتیں سن کر غیرت اور غصے سے میری حالت پاگلوں جیسی ہو گئی میں گھر گیا دیکھا تو میری بیوی کے پاس صرف دو سیب رکھے ہیں میں نے پوچھا کہ تیسرا سیب کہاں ہے وہ بولی مجھے نہیں معلوم شاید کسی بچے نے اٹھا لیا ہو گا مجھے چونکہ حالات معلوم تھا اس لیے ضبط نہ کر سکا اس کو قتل کر کے صندوق میں بند کر دیا اور دریا میں ڈال دیا تھوڑی دیر بعد میرا لڑکا ہوا آیا میں نے پوچھا کیا ہوا وہ بولا میں یہاں سے ایک سیب لے کر باہر گیا تھا وہ میرے ہاتھ سے ایک غلام نے چھین لیا اور میں رونے لگا وہ غلام بولا تو سیب کہاں سے لایا میں نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے میرا باپ اس کے لیے تین سیب بصرہ سے لایا ہے میرا سیب مجھے واپس دے دو ورنہ میری ماں مارے گی اس غلام نے مجھے مارا اور سیب لے کر بھاگ گیا بچے سے یہ واقعہ سن کر مجھے اتنی پشیمانی ہوئی کہ میں عرض نہیں کر سکتا لیکن اب کیا کر سکتا تھا اس کے بعد میں نے سسر کو یہ واقعہ سنایا وہ بھی رونے لگا ہم ابھی ماتم داری سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اطلاع ملی کہ میری بیوی کے قتل کے عوض جعفر وزیر بلا قصور مارے جا رہے ہیں چنانچہ میں یہاں پہنچا اور اپنے جرم کا اقرار کیا خلیفہ نے اس نوجوان اور بوڑھے کو معاف کر دیا اور کہا اصل قصور وار وہ غلام ہے جس نے اتنا بڑا بہتان تراشا ہے اور جعفر کو حکم دیا کہ اس غلام کو تلاش کرو چنانچہ غلام گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا بادشاہ نے اسی وقت اس کا سر قلم کرنے کا حکم دے دیا میرے محترم عزیز دوستوں یہ کہانی ایک سبق سکھاتی ہے کہ زندگی میں غلط فہمیاں اور بے سمجھی کتنی تباہ کن ہو سکتی ہے اکثر اوقات ہم حقیقت کو مکمل طور پر سمجھے بغیر جلد بازی میں فیصلے کر لیتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے رشتے خراب ہوتے ہیں بلکہ ہم خود بھی ذہنی تناؤ اور مشکلات کا ہو جاتے ہیں غلط فہمی کا نتیجہ عام طور پر ناقص بات چیت اور حقائق کے ادھورے علم کی وجہ سے ہوتا ہے انسانوں کا ایک دوسرے سے سنی سنائی باتوں یا محدود معلومات پر مبنی فیصلے کرنا نہ صرف غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے بلکہ بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے یہ کہانی ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ کوئی بھی بڑا یا چھوٹا فیصلہ کرنے پہلے ہمیں پوری تصویر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور دیگر کا موقف جاننے کا موقع دینا چاہیے مزید یہ کہ میں دکھایا گیا ہے کہ کسی ایک واقعے یا بات کا ایک ہی پہلو دیکھنے کے بجائے مختلف زاویوں سے جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ حقیقت کو درست طور پر سمجھا جا سکے اگر ہم اپنی زندگی میں یہ اصول اپنائیں کہ بغیر مکمل معلومات کے کوئی بھی نتیجہ اخذ نہ کریں اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہمارے تعلقات میں اعتماد بڑھے گا اور ہم بہتر فیصلے کر سکیں گے آخر میں یہ کہانی بتاتی ہے کہ غلط فہمیاں جب تک دور نہ کی جائیں وہ دلوں میں پیدا کرتی ہیں اور انسان ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں لہذا سچائی کو جاننا معلومات کو تحمل سے دیکھنا اور صبر و حکمت کے ساتھ فیصلے کرنا ایک کامیاب اور پر سکون زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے
Leave a Comment