بسم اللہ الرحمن یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشقیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقت کا معاوضہ وصول کرتا سب اسے ماشقی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ وہ مشکل ہی بھر پاتا لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اس لیے برسوں سے یہی کام کیے جا رہا تھا ایک طرف یہ ماشقی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تو دوسری طرف گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشقوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہو جاتا شہر کے کنویں کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا جہاں دن میں کئی چکر لگانے پڑتے تھے اب اس گدھی کی حالت ابتر ہو گئی اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کر کچھ نہ ملتا اور بہت زیادہ کام کرنا پڑتا اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو مشقی دوا دارو مرہم پٹی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا برداشت کرنے پر مجبور تھا وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آ کر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا ایک دن اس گدھے کو شاہی اسطبل کے داروغانے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا اس نے محنت کش سے کہا تمہارا گدھا قریب المرگ ہے اس کی حالت تو دیکھو اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو معاشقی نے مودبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا my باپ گدھے کو کہاں خود مجھے روٹیوں کے لالے پڑے ہیں دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھلا پاتا یہ سن کر داروغہ کو ترس آیا اور کہنے لگا میاں ماشقی تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو میں اسے شاہی اسطبل میں رکھوں گا وہ تر و تازہ گھاس چنے اور جو کا دانہ کھا کر کچھ ہی دنوں میں موٹا اور تازہ ہو جائے گا ماشقی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا گدھا اس کے سپرد کر دیا داروغہ نے لے جا کر شاہ اسطبر میں باندھ دیا وہاں جا کر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہر طرف ترکی اور عربی النسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے ہر گھوڑے کا بدن خوب و فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے کوئی مالش کر رہا تھا کوئی دانہ کھلا رہا تھا کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا پھر گدھے نے دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں لید کا نام و نشان نہیں ہے لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس جو اور چنا پھینکا ہوا ہے یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتنی picked up اور خدا سے فریاد کی یا الہی یہ کیا تماشا ہے بے شک میں گدھا ہوں لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں کیا تو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تو رب نہیں ہے پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں بھی کھاؤں ابھی گدھے کی یہ فریاد نہ تمام تھی کہ اسطبل میں ہلچل مچی گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے ان پر زینے کا ذیوں ٹھیک کر کے باہر لے گئے اتنے میں طبل جنگ بجنے لگا معلوم ہوا گاؤں میں ایک گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں شام کے وقت گھوڑے میدان جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑھے تھے اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نال بند قطاروں میں کھڑے ہو گئے پھر گھوڑوں بدن میں پیوس تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے جونہی کوئی تیر باہر آتا گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کی روح کھینچ کر حلق میں آ گئی بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی میں اپنے اسی حال میں خوش اور مطمئن ہوں میں ایسی و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے سچ ہے کہ میں ان سے بہتر ہوں مار کھاتا ہوں تیر تو جسم میں پیوست نہیں ہوتے ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں درد تو کرتی ہیں لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے لیکن ایسا تو نہیں ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے کونے میں چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنے سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں چند دنوں بعد داروغان ماشق کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا اس کے مالک نے سوچا اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے مگر گدھا جانتا تھا کہ اسطبل میں رہ کر اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا.
گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں ہے وہی عافیت اور چین سے ہے. اور ہر چیز کی آرزو نہیں کرنی چاہیے. میرے محترم عزیز دوستوں کہانی کا حاصل سبق یہ ہے. کہ ہم ہمیشہ اپنے حالات پر ماتم کرتے ہیں. ہم دوسروں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ کتنی شاندار زندگی جی رہا ہے. سب سہولتیں اس کے پاس ہیں. میرے پاس کیا ہے. میں کتنی مشکل زندگی گزار رہا ہوں اور میرا پڑوسی کتنی شان سے زندگی بسر کر رہا ہے.
لیکن اگر حقیقت معلوم ہو جائے کہ جس کو ہم اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں اس کی زندگی میں کتنی مشکلات اور کتنی پریشانیاں ہیں اس کی زندگی کتنی کٹھن ہے وہ اپنی زندگی میں کن کن پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے تو شاید ہمیں اپنے حالات پر رحم آئے اس لیے اپنا موازنہ دوسروں سے ہرگز نہ کریں اللہ پاک نے آپ کو جو عطا کیا ہے جس حال میں آپ رہ رہے ہیں آپ بہترین ہیں اسی حال میں خوش رہنا سیکھے زیادہ کی تمنا انسان کو موجود نعمتوں سے بیزار کر دیتی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا اے علی میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے میرے پاس دولت ہے گھر ہے کاروبار ہے مگر ان کے باوجود میں ہر وقت پریشان رہتا ہوں میری زندگی میں سکون نہیں ہے مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اے شخص جو انسان شکر ادا نہیں کرتا جو انسان اپنے حالات پر خوش نہیں رہتا وہ ہمیشہ پریشان رہتا ہے کیونکہ کیونکہ زیادہ کی توقع انسان کو موجود نعمتوں سے بیزار کر دیتی ہے. خدا حافظ اللہ پاک آپ سب کا حافظ و نگہبان ہنستے رہیے اور ہمیشہ مسکراتے رہیے
Leave a Comment