حجر اسود کی تاریخ حجر اسود جنت کے یعقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشے میں نصب فرمایا تھا طوفان نوح علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اٹھائے جاتے وقت اس معتبر پتھر کو شک میں جبل ابیقیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے سیدنا ابرا علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں پیش کر دیا تھا اس طرح اسے پھر اسی جگہ کی زینت بنا دیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا اس کے فضائل اور اوصاف میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن جنت کا یہ انمول موتی عالی مرتبت مقدس معتبر یاقوت گردش ایام کی ستم رانیوں سے محفوظ نہ رہ سکا متعدد بار ظالموں کے ہاتھوں تختہ مشق بننا پڑا بارہا حوالثات کا شکار ہوا اور اس کے ناظرین بدن پر کتنی مرتبہ زخم آئے تین سو اٹھارہ ہجری میں جب مکہ مکرمہ کرامتہ کے دست تصرف میں آیا تو ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے جو کرامتا کا سردار تھا حرم محترم میں خون کی ہولی کھیلی اس نے آٹھ ذی الحجہ تیرہ سو اٹھارہ ہجری کو اس قدر قتل و عام کیا گیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہے زم زم بھر گیا شہر اور کے تیس ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلا دیا جن میں سترہ سو حاجی اور سات سو طواف کرنے والے بھی شہید ہو گئے اس نے یہ سارا کھیل میزاب رحمت یعنی کعبہ شریف کا پرنانا جو سونے کا تھا اکھاڑنے مقام ابراہیم اور حجر اسود چوری کرنے کی نا مشکور جسارت کے لیے کھیلا تھا دو آدمی اس مذموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے مگر واحد میں سر کے بل زمین پر گر کر واصل جہنم ہو ہیں۔ مقام ابراہیم تو اس کے دست تصرف سے معمود رہا۔ کیونکہ خدام حرم نے اسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیا تھا۔ مگر اکیس ذی الحجہ تیرہ سو اٹھارہ بروز اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابو طاہر کے حکم سے حجر اسود کو کدال سے اکھاڑ دیا۔ اس پر کئی ضربیں لگائیں۔ جس سے کچھ ریزیں ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔ اور اس کی جگہ خالی رہ گئی۔ تقریبا بائیس سال کا طویل زمانہ گزر جانے کے بعد بحرین کے شہر اجر سے بدھ دس ذوالحجہ تیرہ سو انتالیس کو یہ مبارک پتھر واپس ہوا واپسی بھی معجزہ نما تھی کرامتیوں سے بار بار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیا ہے ان میں سے اسے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں اگر تمہارے پاس اس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کر لو چنانچہ علماء کرام سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا ان سب پتھر آگ میں ڈالا جائے جو پتھر آگ میں پگھل یا پھٹ جائے وہ حجر اسود نہیں حجر اسود کو آگ متاثر نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جنت کا پتھر ہے اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منوا کر اسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنا دیا گیا علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے یہ ظالم ابو طاہری چیچہ کے عارضہ میں مبتلا ہوا اس کا پھٹ گیا اور نہایت ذلت کے ساتھ مرا۔ علامہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابو طاہر کرامتی بدبخت کو ابرہا کی طرح بیت اللہ کے بجائے اپنے شہر حجر میں hajj کا اجتماع کرانے کا جنون دماغ میں پیدا ہوا۔ اس نے اس غرض سے ایک عالی شان محل بنوایا جس کا نام دارالحجرہ رکھا۔ چنانچہ تیرہ سو اٹھارہ ہجری میں hajj کے ایام میں ایک لشکر جرار لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا۔ طواف کرنے نماز پڑھنے والوں اور احرام کی حالت میں حاجیوں پر دست ستم دراز کیا۔ حرم محترم کے اندر بھی بے دریغ قتل و عام کیا گیا۔ شہر کے علاوہ گردونواح میں قتل عام کا بازار گرم کیا۔ تیس ہزار بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے۔ اس قدر روح پرسہ واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا تھا۔ وہ ظالم کہتے تھے کہ تم مسلمان کہتے ہو۔ یعنی جو حرم میں داخل ہوگیا وہ معمول ہو گیا بتاؤ اب امن کہاں گیا۔ ابن خلدون رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابو طاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا غلاف کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیے حجر اسود کو اکھاڑ کے ساتھ لے گیا اہل مکہ کے گھر بار اور مال و مکہ کو لوٹ لیا اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ سے hajj اس کے ہاں ہوا کرے گا خلافت مستقفی کے عمران نے بے حد کوشش کی یہ کسی طرح اسود واپس آ جائے انہوں نے پچاس ہزار سرخ دینار کی پیش کش کی مگر حرامتی ٹس سے مس نہ ہوئے وہ ابو طاہر اس خیال فاسد پر قائم تھا یہ ناپاک جسارت اپنے امام عبیداللہ المہدی والی افریقہ کی خوشنودی کے لیے کر رہا ہے لیکن جب منصور اسماعیل نے کربان سے حجر اسود کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا اور ادھر عبید اللہ المہدی نے بھی ابو طاہر کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر حجر اسود نہ کرو گے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اس لیے مجبورا تیرہ سو انتالیس ہجری میں واپس کرنا پڑا جبکہ اس سے قبل خلافت مستقفی کی جانب سے پچاس ہزار دینار کے عوض بھی واپسی کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا تھا طواف کی ابتدا حجر اسود کے سلام سے ہوتی ہے یہ جنت کا پتھر ہے جس میں اللہ تعالی نے انسانوں کے گناہ جذب کرنے کی عجیب تاثیر رکھی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت اسود جنت سے اترا وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ پھر آدمیوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہیں۔ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی روشنی کو ختم نہ فرماتے تو یہ پوری زمین و آسمان کو روشن کر دیتے۔ نیزیاں بھی مروی ہے کہ حجر اسود قیامت کے دن اپنے بوسہ لینے والوں اور استلام والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور اس دن اللہ تعالی اس کو زبان اور ہونٹ عطا فرمائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس حجر اسود کو اپنے عمل خیر کا گواہ بنا لو کیونکہ قیامت کے دن یہ سفارش بن کر اللہ تعالی کے دربار میں اپنے استلام کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے پیغمبر علیہ السلام سے حجر اسود کا بوسہ دیتے وقت رکعت اور وزاری ثابت ہے علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی تقدیل اور استلام کو گویا کہ اللہ تعالی سے مصافحہ کرنا قرار دیا ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد پاک ہے جو شخص حجر اسود کو ہاتھ لگائے گویا وہ اللہ تعالی سے مصافحہ کر رہا ہے
Leave a Comment