مسجد قباء نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلا کام مسجد قباء کی تعمیر کا کیا اس کا پہلا پتھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے رکھا اس کے بعد ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایک پتھر رکھا قبا وہ قابل دید تاریخی مقام ہے جس میں محبوب آقا نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل آرام کیا تھا قبا وہ تاریخی مقام ہے جہاں اسلامی تاریخ کی سب سے پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر ہوئی لاکھوں مسلمان دنیا کے گوشے گوشے سے ہر سال ارض مقدس آتے ہیں آنے والوں میں بھی وہ بھی ہیں جو ملازمت کے ارادے سے آتے ہیں آنے میں عمرہ, زیارت اور حج ویزے والے بھی ہوتے ہیں.
یہ حضرات مدینہ منورہ پہنچتے ہیں تو مسجد قباء کی زیارت بھی کرتے ہیں. وہاں پہنچ کر محبوب آقا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین کی قربانیوں اور اسلام کی بقاء اور اشاعت کے لیے ان کے جمیلہ کی یاد تازہ کر کے اپنے ایمان کو تازگی بخشتے ہیں. قبا میں ہوتے ہیں تو تاریخی صفحات کی برگردانی کرتے سوچتے ہیں. کہ کس طرح صحابہ کرام اسلام کی اشاعت کی خاطر محبوب آقا کے لیے سینہ سفر ہو گئے تھے.
اور کیسی کے قربانیاں دے کر دین حق کا بول بالا کیا تھا قبا مدینہ منورہ سے ایک فاصلے پر بستی ہے جہاں انصار کے خاندان آباد تھے یہی وہ مقام ہے جہاں آقا کی سواری پہنچنے پر مدینہ منورہ کے انصار استقبال کے لیے نکل کھڑے ہوئے جہاں اسلامی تاریخ کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی اور جس کی شہادت قرآن پاک نے دی ہے مسجد قباء مدینہ منورہ کے جنوب میں واقع ہے یہ مسجد نبوی شریف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اس میں ایک ہے جو حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے مشہور ہے قباء محلے میں ہونے کی وجہ سے مسجد کا بھی نام قبا رکھا گیا شروع شروع میں مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے قبلہ تبدیل ہوا تو سب خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے لگے قبا کے بازو نے مسجد قبا کا رخ تبدیل کرنا تھا رسول کریم تشریف لائے اور سب کے ساتھ مل کر قبلہ کا رخ عین کیا اور ترمیم اصلاح میں حصہ لیا مسجد قبلتین مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع مسجد جہاں دو ہجری میں نماز کے دوران تحفیل کعبہ کا حکم آیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب پھیرا کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں مسجد کہا جاتا ہے یہ مسجد بحی رومہ کے قریب واقع ہے مسجد کا داخلی حصہ قباء دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے پندرہ سو تینتالیس میں اس کی تعمیر نو کروائی اس کی موجودہ تعمیر و توسیع احد بن عبدالعزیز کے دور میں مکمل ہوئی اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جب کہ میناروں اور گنبدوں کی تعداد بھی دو دو ہے مسجد کا رقبہ تین ہزار نو سو بیس مربع میٹر ہے مدینہ منورہ میں بہت سی ایسی مساجد ہیں جو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ان مساجد کو دیکھ کر بھال کے حوالے سے خادم حریمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی توجہ حاصل ہے اس سلسلے میں ان مساجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اور یہاں مطلوب تمام تر سازوسامان اور الیکٹرانک آلات کی بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے مدینہ منورہ آنے والے حجاج کی کوشش ہوتی ہے کہ مسجد نبوی شریف کے بعد یہاں پر سات مساجد کی زیارت کو یقینی بنائیں ان کی تعداد درحقیقت چھ ہیں مگر تاریخی اہمیت کے حامل یہ مقامات سات مساجد کے نام سے مشہور ہیں مورخین کے مطابق مسجد قبلتین کو بھی ان چھ مساجد کے مجموعے سے تقریبا ایک کلو میٹر کی دوری پر جو واقع ہے بقیہ مساجد کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے اس لیے کہ کوئی بھی ان چھ مساجد کی زیارت کرتا ہے وہ اسی سفر میں مسجد قبلتین کا بھی دورہ کر لیتا ہے اس طرح یہ تعداد سات ہو جاتی ہے مجموعے کی چھ مساجد مدینہ منورہ میں جبل صلاح کے مغربی سمت اس مقام کے نزدیک واقع ہیں جہاں غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے مشہور خندق کی کھدائی کی تھی یہ معرکہ غزوہ احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ مقامات اس غزوہ کے دوران مربوط انداز سے زیر نگرانی تھے۔ لہذا ہر مسجد کو اس کے متعلق شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ سوائے مسجد الفتح کے جس کو مسلمانوں کے فتح کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ شمال سے جنوب کی جانب یہ مساجد بالترتیب اس طرح ہیں۔ مسجد الفتح مسجد سلیمان فارسی، مسجد ابوبکر صدیق، مسجد عمر بن خطاب، مسجد علی بن ابو طالب اور مسجد فاطمہ رضی اللہ عنہم و اجمعین ان میں سب سے بڑی مسجد مسجد الفتح کو مسجد الاحزاب یا مسجد الاعلی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جبل صلح کے مغرب میں واقع ہے۔ مسجد الفتح کی وجہ تسمیہ اس مقام پر سورۃ الفتح کا نازل ہونا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے مدینہ منورہ کی گورنری کے دور میں اس کو پتھروں سے تعمیر کروایا تھا۔ بعد عزا پانچ سو پچھتر ہجری میں وزیر الدین ابو الیحیہ کے حکم پر اس کی ترمیم ہوئی عثمانی سلطان عبدالمجید اول کے دور میں بارہ سو اڑسٹھ ہجری بمطابق اٹھارہ سو اکاون عیسوی میں اس مسجد کی ازسرنو تعمیر کی گئی اس مجموعے میں دوسری مسجد کا نام مسجد سلمان فارسی ہے جو مسجد الفتح کے جنوب میں صرف بیس میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ معروف صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پر ہے جنہوں نے منورہ کے دفاع کے واسطے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی تھی اس مسجد کو بھی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تعمیر کیا گیا وزیر سیف الدین کے حکم سے ترمیم ہوئی اور پھر سلطان عبدالمجید اول کے زمانے میں is سر نو تعمیر کی گئی اس لیے مسجد کا نام مسجد ابوبکر ہے جو مسجد سلمان کے جنوب مغرب میں پندرہ میٹر کی دوری پر واقع ہے یہ سابقہ مساجد کے ساتھ تعمیر ہوئی مسجد ابو کے جنوب میں دس میٹر کے فاصلے پر چوتھی مسجد یعنی مسجد عمر بن خطاب واقع ہے اس کا طرز تعمیر مسجد الفتح سے مطابقت رکھتا ہے اور غالبا اس کی تعمیر اور ترمیم مسجد الفتح کے ساتھ ہی مکمل کی گئی ہوگی اس ترتیب میں پانچویں مسجد کا نام مسجد علی بن ابو طالب ہے یہ مستقل شکل میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کی لمبائی آٹھ اعشاریہ پانچ میٹر اور چوڑائی چھ اشاریہ میٹر ہے غالبا یہ مسجد بھی مسجد الفتح کے ساتھ ہی تعمیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ترمیم کے عمل سے گزری روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مقام پر امرو بن ولد العامری کو قتل کیا تھا جس نے غزوہ اعزاب کے دوران اس خندق کو عبور کر لیا تھا اس مجموعے میں چھٹا نمبر مسجد فاطمہ کا ہے تاریخی کتب میں یہ مسجد سعد بن معاذ کے نام سے موجود ہے یہ اس کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس کی پیمائش صرف تین یا چار میٹر ہے غالبا اس کی آخری تعمیر بھی عثمانی سلطان عبدالمجید اول کے دور میں ہوئی۔ جبل اوحد جبل احد مدینہ منورہ کے شمال میں ایک پہاڑ ہے۔ یہ ایک ہزار ستتر میٹر یعنی تین ہزار پانچ سو تینتیس فٹ بلند ہے۔ اس مقام پر مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان دوسرا غزبہ پیش آیا۔ امام روایت کرتے ہیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ جبل احد پر چڑھے. آپ کے ہمراہ ابوبکر عمر عثمان بھی تھے. وہ پہاڑ ہلنے لگا. آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے پہاڑ پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا اے احد ٹھہر جا. اے احد تجھ پر ایک نبی ہے. ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں. یعنی نبی تو حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام تھے.
صدیق حضرت اور دو شہید یعنی عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ چنانچہ کہ جیسا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ احد وہ پہاڑ ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہم کو احد سے محبت ہے اور اس کو ہم سے محبت ہے۔ غزوہ احد کے سب شہدائے کا نام وہی مدفون ہیں۔ رسول اللہ خاص اہتمام سے اس مقام پر تشریف لے جاتے۔ اور وہاں ان کو صلی دعا سے نوازتے یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے رسول نے فرمایا چار جنتی پہاڑوں میں سے احد بھی ایک ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا چار پہاڑ جنتی ہیں عرض کیا گیا وہ کون سے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا احد جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے وہ ہم سے کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں تور جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے لبنان جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے اور نجبہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے اس کے علاوہ محترم عزیز دوستوں مدینہ منورہ کا سب سے خوبصورت منظر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جہاں پر روضہ اقدس موجود ہے یہ ایک ایسا روحانی مقام ہے جہاں پر جاتے ہی آپ دنیا کے سارے رنج و غم بھول جاتے ہیں آپ کو اپنے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد ستاتی ہے اور جب آپ جالیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام و درود بھیجتے ہیں تو وہ منظر ہی الگ ہے خدا حافظ اللہ پاک آپ سب کا حافظ و نگہبان یہ قسمت نہیں
Leave a Comment