نجاشی کون تھا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین نے حبشہ کی طرف سفر کیوں کیا؟ وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ۔ جب سرزمین مکہ کے مسلمانوں پر تنگ ہو گئی تو رسول کریم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین کو طرح طرح سے ستایا گیا اور ان کو بڑی آزمائشوں میں ڈالا گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ اب کفار ان کی جان کے دشمن ہو گئے ہیں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ و اجمعین کو کہا کہ تمام مسلمان کی طرف ہجرت کر جائیں کیونکہ ملک حبشہ میں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا لہذا تم اس کے ملک میں چلے جاؤ یہاں تک اللہ تعالی تمہیں اس تنگی سے نجات دے اور جن مصیبتوں میں تم مبتلا ہو ان سے نکلنے کا راستہ بنا دے چنانچہ تمام لوگ حبشہ جانے لگے اور وہاں جا کر اکٹھے ہو گئے اور رہنے لگے بڑا اچھا علاقہ تھا وہاں کے لوگ بہترین پڑوسی تھے مسلمان وہاں پر اطمینان سے رہنے لگے وہاں ان پر کسی قسم کے ظلم کا اندیشہ نہیں تھا جب قریش نے دیکھا کہ مسلمانوں کو رہنے کے لیے ایک علاقہ مل گیا ہے جہاں وہ امن سے رہ رہے ہیں تو انہیں یہ بہت برا لگا اور ان کو بڑا غصہ آیا انہوں نے جمع ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ نجاشی کے دربار میں ایک وفد بھیجیں گے جو انہیں نجاشی کے ملک سے نکال کر ان کے پاس مکہ واپس لے آئے گا حبشہ کے بادشاہ کا نام نجاشی تھا چنانچہ بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیع کو بطور وفد بھیجنا طے کیا اور نجاشی اور اس کے جرنیلوں کے لیے بہت سے تحفے جمع کیے اور ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ تحفہ تیار کیا اور ان دونوں سے کہا کہ صحابہ کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہر جرنیل کو اس کا تحفہ دے دینا۔ پھر نجاشی کو اس کے تحفے دینا اور کوشش کرنا کہ صحابہ سے نجاشی کی بات نہ ہونے پائے اور پہلے ہی وہ ان کو تمہارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ حبشہ نجاشی کے ہاں گئے اور ہر جرنیل کو اس کا تحفہ پیش کیا پھر انہوں نے ہر جرنیل سے یہ بات کی کہ ہم اپنے چند بیوقوفوں کی وجہ سے اس بادشاہ کے پاس آئے ہیں یہ بے وقوف اپنی قوم کا دین چھوڑ چکے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوں گے ہماری قوم نے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کر دیں جب وہ اسے تحفے دے چکے تو انہوں نے نجاشی سے کہا اے بادشاہ ہمارے چند نوجوانوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور یہ آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور ایک نیا گھڑا ہوا دین انہوں نے اختیار کیا ہے جسے ہم نہیں جانتے اور اب انہوں نے تمہارے ملک میں آ کر پناہ لے لی ہے اور آپ کی خدمت میں ان کے بارے میں بات کرنے کے لیے ان کے خاندان ان کے والدین ان کے چچا اور ان کی قوم نے ہم لوگوں کو بھیجا ہے تاکہ ان کو ان کی قوم کے پاس واپس بھیج دیں کیونکہ ان کی قوم والے ان کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور یہ لوگ آپ کے میں کبھی داخل نہیں ہوں گے۔ کہ آپ اس وجہ سے ان کی حمایت اور حفاظت کریں۔ یہ سن کر نجاشی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں۔ اور جب تک میں انہیں واپس نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ انہوں نے میرے ملک میں آ کر پناہ لی ہے۔ اور کسی اور کا پڑوس اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے میرا پڑوس اختیار کیا ہے۔ اگر وہ ایسے نکلے جیسے ان کے قوم والے کہہ رہے ہیں تو میں انہیں ان کی قوم کے پاس واپس بھیج دوں گا۔ اور اگر وہ ویسے ہوئے تو میں ان کی ہر طرح کی حفاظت کروں گا اور ان کے اور ان کی قوم کے درمیان نہیں پڑوں گا چنانچہ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا لیا جب مسلمان اس کے پاس آئے تو انہوں نے اسے سلام کیا اور سجدہ نہ کیا تم مجھے یہ بتاؤ کہ جس طرح تمہاری قوم کے آدمیوں نے آکر مجھے سجدہ کیا مجھے سلام کیا تم لوگوں نے اس طرح مجھے سلام نہیں کیا اور یہ بھی بتاؤ کہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہو اور تمہارا کیا ہے کیا تم عیسائی ہو مسلمانوں نے کہا نہیں نجاشی نے کہا کیا تم یہودی ہو انہوں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم اپنی قوم کے دین پر ہو انہوں نے کہا نہیں اس نے کہا پھر تمہارا دین کیا ہے انہوں نے کہا اسلام اس نے کہا اسلام کیا ہے انہوں نے کہا ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے اس نے کہا یہ تمہارے پاس کوند لایا انہوں نے کہا یہ دین ہمارے پاس ہم میں ایک آدمی لے کر آیا ہے جسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں اس کے حسب نسب سے ہم خوب واقف ہیں انہیں اللہ پاک نے ہماری طرف ایسے ہی بھیجا ہے جیسے اللہ نے اور رسولوں کو ہم سے پہلوؤں کی طرف بھیجا انہوں نے ہمیں نیکی اور صدقہ کرنے کا وعدہ پورا کرنے امانت ادا کرنے کا حکم دیا بتوں کی عبادت سے انہوں نے ہمیں روکا اور کی عبادت کا حکم دیا ہم نے انہیں سچا مان لیا اور اللہ کے کلام کو پہچان لیا ہمیں یقین ہے کہ وہ جو کچھ لائے ہیں وہ سب اللہ کے پاس سے آیا ہے ہمارے ان کاموں کی وجہ سے ہماری قوم ہماری دشمن ہو گئی اور اس سچے نبی کی بھی دشمن بن گئی اور انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کو قتل کرنا چاہا ہم سے زبردستی بتوں کی عبادت کروانا چاہتے ہیں ہم اپنے دین اور اپنی جان کو لے کر اپنی قوم سے بھاگ کر آپ کے پاس آئے ہیں نجاشی نے کہا کی قسم یہ بھی اسی نور سے نکلا ہے جس سے موسی کا دین نکلا تھا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا باقی رہی سلام کرنے کی بات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ جنت والوں کا سلام السلام علیکم ہے آپ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے چنانچہ ہم نے آپ کو ویسے ہی سلام کیا جیسے ہم آپس میں کرتے ہیں جہاں تک حضرت عیسی بن مریم کا تعلق ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول ہیں اور وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جس کو اللہ نے مریم کی طرف حلقہ فرمایا تھا اور اللہ کی پیدا کی ہوئی روحیں اور وہ اس کنواری عورت کے بیٹے ہیں جو الگ تھلگ رہنے والی تھی نجاشی نے ایک تنکا اٹھا کر کہا اللہ کی قسم تم نے جو کچھ بتایا ہے حضرت عیسی علیہ السلام اس سے اتنے بھی یعنی اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں یہ سن کر حبشہ کے معزز سرداروں نے کہا اللہ کی قسم اگر حبشہ کے نے تمہاری اس بات کو سن لیا تو وہ تمہیں بادشاہت سے ہٹا دیں گے اس نے کہا اللہ کی قسم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کچھ بھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہوں گا جب اللہ نے میرا ملک مجھے واپس کیا تھا تو اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات نہیں مانی تھی تو اب میں اللہ کے دین کے بارے میں ان لوگوں کی بات کیوں مانوں ایسے کام سے اللہ کی پناہ اللہ کی قسم اگر بادشاہت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر خود ان کے جوتے اٹھاتا اور پھر نجاشی نے حکم دیا تو قریش کے ان دونوں قستوں کے تحفے واپس کر دیے گئے پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جلدی سے مدینہ گئے یہاں تک کہ بدر میں شریک ہو گئے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم وہاں سے چلے پھر مدینہ پہنچے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے میرا استقبال کیا پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھ گئے تو نجاشی کے قاصد نے کہا یہ حضرت جعفر ہیں آپ ان سے پوچھ لیں کہ ہمارے بادشاہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تو حضرت جعفر نے کہا جی ہاں اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یہ کیا واپسی پر ہمیں سواری اور زادے سفر بھی اور اس نے کلمہ شہادت بھی پڑھا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ سے کہا تھا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کرنا کہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کر دے چنانچہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہو کر وضو فرمایا اور پھر تین دعا فرمائی اے اللہ نجاشی کو مغفرت عطا فرما تمام مسلمانوں نے اس دعا پر آمین کہے پھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس قاصد سے کہا کہ تم واپس جاؤ اور تم نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو جو کچھ کرتے دیکھا ہے وہ اپنے بادشاہ کو بتا دینا تو محترم ناظرین یہ تھا سفر حبشہ اور نجاشی کا دربار جس نے مسلمانوں کی حق گوئی کو پہچان لیا تھا اور اس نے کو کفار کے حوالے کرنے سے صاف منع کروا دیا تھا اور کفار کے تمام تحائف ان کو واپس کر دیے تھے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اپنے وقت کا ایک خوش نصیب انسان تھا جس نے رسول اللہ کو دیکھے بنا اس پر ایمان لایا کلمہ پڑھا مسلمان ہوا
Leave a Comment