وقت کا سفر ایک ایسا پراسرار اور حیرت انگیز موضوع ہے جس نے صدیوں سے انسانیت کے ذہنوں کو مفلوج کیے رکھا ہے کیا واقعی ہم ماضی میں جا سکتے ہیں کیا مستقبل کی جھلک دیکھنا ممکن ہے ان سوالات نے ہمیشہ سائنسدانوں فلسفیوں اور یہاں تک کہ عام لوگوں کے دلوں میں تجسس پیدا کیا ہے آج ہم انہی سوالات کی گہرائی میں اترتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سائنسی اسلامی اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے وقت کا سفر کس حد تک ممکن ہے وقت کی نوعیت کیا کبھی آپ نے سوچا کہ وقت کیا ہے ہمارے اردگرد کی دنیا میں وقت ایک ناقابل گرفت شے ہے جو بغیر کسی آواز یا حرکت کے آگے بڑھتا رہتا ہے ہم وقت کو صرف ایک سیدھی لائن سمجھتے ہیں جس میں ماضی پیچھے رہ جاتا ہے اور مستقبل آگے کی جانب چلتا ہاں، لیکن سانسی کے نقطہ نظر سے، کیا یہ حقیقت ہے؟ اگرفزکس میں وقت کو چوتھی بوت کے طور پر سمجھا جاتا ہے یہ ایک ایسی بوت ہے جو تین دیگر یعنی لمبائی چوڑائی سے وابستہ ہے اور؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس بوتھ کے اندر سفر کریں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ماجی کے پاس جانا اور مستقبل کو صرف کہانیوں کا حصہ دیکھنا ہے؟ کیا یہ حقیقت بننے جا رہا ہے؟ آئن سٹائن کا نقطہ نظر سائنس ہمیں حیران کر دیتی ہے آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے کہ وقت کوئی ساکن شے نہیں ہے یہ نہ صرف ایک ناقابل تبدیل حقیقت ہے بلکہ یہ حرکت اور کشش عقل کے ساتھ بدل سکتا ہے آئن سٹائن کے کے مطابق جتنی تیز رفتار سے ہم حرکت کریں گے وقت اتنا ہی سست ہوتا جائے گا یہ کیسا احساس ہوگا جب آپ روشنی کی رفتار سے سفر کریں کہ آپ کا وقت زمین پر موجود لوگوں کے مقابلے میں سست ہوگا کہ آپ اپنے مستقبل کے پیاروں سے مل سکیں گے یہاں سوالات کا ایک دریا ہے لیکن جواب صرف سائنسی تحیل میں موجود ہے آئن سٹائن کے نظریے اضافیت کے مطابق جب کوئی شے روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرتی ہے تو وقت اس کے لیے سست ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی انسان ایک بہت تیز رفتار خلائی جہاز میں سفر کرے تو اس کے لیے وقت بہت آہستہ گزرے گا جب کہ زمین پر وقت معمول کے مطابق چلے گا اس طرح وہ شخص جب واپس زمین پر آئے گا تو زمین پر زیادہ وقت گزر چکا ہو گا اور یہ تصور مستقبل میں سفر کرنے جیسا ہے ورم ہولز زمان و مکان کی سرنگیں ہیں ورم ہولز کیا ہیں یہ ایک اور پراسرار سوال ہے جس نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے مقامات اور اوقات کو آپس میں جوڑنے والی خلائی سرنگیں سمجھی جاتی ہیں تصور کریں کہ ایک ایسی سرنگ موجود ہو جو آپ کو آج سے ہزار سال پیچھے لے جا سکے یہ آپ کو مستقبل کی جھلک دکھا سکے لیکن کیا واقعی حقیقی ہیں آج تک کوئی بھی انہیں دیکھ نہیں سکا لیکن سائنسی نظریات کے مطابق اگر ہم انہیں دریافت کر پائیں تو وقت کا سفر ایک حقیقت بن سکتا ہے ماضی میں سفر کرنا زیادہ اور سائنس میرے پاس اس پر بہت ہیں۔ ہے.
کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ایک نظریہ ورم ہالز کا ہے جو خلا میں شارٹ کٹ بناتے ہیں اور ممکنہ طور پر وقت میں آگے یا پیچھے جانے کی اجازت دے سکتے ہیں ورم ہال کو ٹائم مشین کی طرح سمجھا جا سکتا ہے مگر یہ محض ایک نظریہ ہے اور حقیقت میں اس کا کوئی عملی ثبوت موجود نہیں ہے ٹائم ڈائلیشن وقت کی رفتار میں تبدیلی ٹائم ڈائلیشن ایک اور حیران کن سائنسی حقیقت ہے اگر آپ کسی بہت تیز رفتار سے سفر کریں یا کسی بڑے سیالے کی شدید کشش شکل کے اثر میں ہوں تو آپ کا وقت طریقے سے گزرے گا زمین پر موجود لوگ تیزی سے وقت گزاریں گے جب کہ آپ کا وقت سست ہوگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم واقعی اتنی دور جا سکتے ہیں کہ واپس آنے پر ہمیں دوستوں اور خاندان کو بوڑھا دیکھیں جب کہ ہمیں کوئی فرق نہ پڑے یہ سوال ایک نیا معیمہ کھڑا کرتا ہے کیا مستقبل پہلے سے طے شدہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کو تبدیل کر سکتے ہیں یہ وہ سوالات ہیں جو وقت کے سفر کے حوالے سے ہمیشہ ذہنوں میں آتے ہیں ایک مشہور فلسفیانہ معیمہ گرینڈ پیراڈوکس ہیں اگر آپ ماضی میں جا کر اپنے دادا کو مار دیتے ہیں تو کیا آپ پیدا ہو سکیں گے اور اگر نہیں تو پھر آپ ماضی میں جا کر ایسا کیسے کر سکتے ہیں یہ سوالات صرف سائنسیفیکشن نہیں ہیں بلکہ وقت کے سفر کے ممکنہ نتائج پر گہری سوچ و فکر کی ضرورت ہے اسلامی تعلیمات وقت کے بارے میں ایک منفرد نقطہ نظر پیش کرتی ہیں قرآن مجید میں وقت کے بارے میں بارہا ذکر ملتا ہے اور اللہ تعالی کا وقت سے ماورا ہونا ایک اہم حقیقت ہے حضرت خضر علیہ السلام اور کے واقعے میں ماضی ہاتھ اور مستقبل کی جھلک واپس وقت دیکھی جا سکتی ہے اسی طرح واقعہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رات کے ایک مختصر حصے میں مختلف مقامات کا سفر اور پھر واپس آنا وقت کی پابندیوں سے ماورا ایک معجزہ ہے کئی لوگوں نے دعوی کیا کہ انہوں نے ماضی یا مستقبل کا سفر کیا ہے یہ ایسے لوگوں سے ملے ہیں جو دوسری دنیا سے آئے تھے مثلا کچھ پراسرار تصاویر اور ایسے افراد کی اشیاء نظر آتی ہیں جو ان زمانے سے نہیں لگتی جیسے کہ قدیم تصاویر میں جدید ٹیکنالوجی کا ہونا کیا یہ واقعی ممکن ہے یا صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے ٹائم مشین کا تصور ہمیشہ سے ایک سنسنی خیز موضوع رہا ہے مشہور سائنس فیکشن کہانیوں میں جیسے کہ ایچ جی ویلز کی ٹائم مشین میں ایک ایسی مشین دکھائی جاتی ہے جو وقت کی رکاوٹوں کو توڑ سکتی ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے جدید سائنسدان جیسے سٹیفن ہاکنگ نے بھی اس موضوع پر قیاس آرائیاں کی ہیں لیکن عملی طور پر وقت کا سفر تک ایک خواب ہے کیا ہم مستقبل میں جا سکیں گے اگر ایسا ممکن ہو تو کیا ہم مستقبل کے انسانوں کو دیکھ سکیں گے کیا وہ وقت کی حدوں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے بعض سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ اگر ہم وقت کا سفر ممکن بنا سکیں تو ہم مستقبل کے بارے میں ایسے انکشافات کر سکتے ہیں جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اگر وقت کا سفر ممکن ہو جائے تو اس کے کیا اخلاقی نتائج ہوں گے کیا ہم ماضی کو تبدیل کر سکیں گے یا یہ وقت کی تقدیر میں مداخلت کے مترادف ہو گا اسلامی تعلیم وقت اور زمانے کے موضوعات پر اسراریت اور حکمت سے بھرے ہوئے ہیں کئی واقعات ایسے ہیں جن میں وقت کی نوعیت اس کے گزرنے کا مختلف انداز اور اس پر قدرت کا ذکر ملتا ہے واقعہ معراج کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات ہیں جن سے وقت کی اہمیت اور اس کے سفر کا ایک منفرد پہلو سامنے آتا ہے اصحاب کہف کا واقعہ ایک بہت ہی مشہور اسلامی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک کی سورہ کہف میں موجود ہے یہ چند نوجوانوں کا گروہ تھا جو کفر اور ظلم سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ پر مجبور ہوا اللہ تعالی نے انہیں سو سال سے زیادہ عرصے تک ایک گہری نیند میں رکھا جب وہ بیدار ہوئے تو انہیں لگا کہ انہوں نے صرف ایک دن یہ اس سے بھی کم وقت گزارا ہے لیکن حقیقت میں وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے ان کا جسم سلامت رہا اور وہ وقت کے سفر کا ایک زندہ ثبوت بنے یہ واقعہ اس بات کا زندہ مظہر ہے کہ اللہ تعالی وقت پر بھی مکمل قدرت رکھتا ہے سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بے پناہ طاقتیں عطا فرمائی جن میں جنات اور ہوا پر اختیار بھی شامل تھا۔ قرآن مجید میں سورۃ النمل میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کا تخت اپنے دربار میں لانے کا حکم دیا۔ ایک جن نے کہا کہ وہ تخت کو سلیمان علیہ السلام کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دے گا۔ لیکن ایک عالم نے کہا میں اسے آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لا کر دوں گا۔ اور واقعی سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کا تخت اپنی جگہ پر پایا۔ یہ واقعہ وقت اور فاصلے کے سفر کا ایک حیرت انگیز واقع اس میں پلک جھپکنے کی دیر میں میلوں کا سفر طے کر لیا گیا اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا ہے جسے وقت تھمنے کی ایک واضح مثال کہا جا سکتا ہے اور وہ واقعہ یوشا بن نون علیہ السلام کا جن کے ذریعے اللہ تعالی نے سورج کو روک دیا تھا یہ واقعہ ایک غیر معمولی معجزے کے طور پر اسلامی تاریخ میں ملتا ہے حضرت یوشا بن نون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد تھے اور بنی اسرائیل کے ایک جلیل القدر پیغمبر تھے ان کا اہم کارنامہ بنی اسرائیل کو فتح کے ذریعے مقدس میں داخل کرنا تھا جس کے دوران ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا یوشا بن نون علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایک قوم کے خلاف جنگ میں فتح عطا کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ جنگ جمعہ کے دن ہو رہی تھی اسلامی روایت کے مطابق جمعہ کے دن مغرب کے بعد کا وقت یہودیوں کے لیے آرام اور عبادت کا وقت ہوتا ہے اور انہیں اس وقت کے بعد کوئی دنیاوی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی حضرت یوشا بن نون علیہ السلام اور ان کی فوج فتح کے بہت قریب پہنچ چکی تھی لیکن قریب تھا اور سورج ڈوبنے والا تھا اگر سورج ڈوب جاتا تو جنگ رک جاتی اور دشمن کو فرار ہونے کا موقع مل سکتا تھا نون علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ سورج کو تھم جانے کا حکم دیا جائے تاکہ وہ جنگ کو مکمل کر سکیں اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کی اور سورج ڈوبنے کے بجائے تھم گیا وہ وقت ایک معجزاتی انداز میں رک گیا اور حضرت یوشاب نون علیہ السلام نے فتح حاصل کر لی اس واقعہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ سورج اس تک رکا رہا جب تک حضرت یوشا بن نون علیہ السلام کو اللہ کی مدد سے مکمل فتح نہ مل گئی یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت وقت اور کائنات کی تمام حدود سے بالاتر ہے وہ جب چاہے وقت کو روک سکتے ہیں بڑھا سکتے ہیں یا اس کی رفتار کو بدل سکتے ہیں ان تمام باتوں سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ وقت اللہ کی دی ہوئی ایک امانت ہے اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے
Leave a Comment