یہ سن کر آپ کے پیروں تلے زمین نکل جائے گی۔ یہ کوئی من گھڑت یا فرضی کہانی نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ جب انسان کی غیرت ختم ہو جاتی ہے۔ جب انسان کی شرم و حیا مٹ جاتی ہے۔ تو انسان وہ گزرتا ہے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تو آئیے بڑھتے ہیں آج کے واقعے کی طرف علامہ ابن جوزی اپنی کتاب زلحوی میں لکھتے ہیں ابن نجی نے ایک با اعتماد دوست کا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا میرے گھر کے قریب جو قبرستان ہے اس قبرستان کے مردے اپنی اپنی قبروں سے نکلے ہیں اور ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں حتی کہ تمام اہل قبور ایک جگہ اکٹھے ہو گئے اور وہ ایک جمع ہو گئے پھر انہوں نے شروع کر دی اور گڑگڑا کر دربار الہی میں دعا کرتے ہیں یا اللہ تو فلاں عورت جو صبح مر گئی ہے وہ ہمارے قبرستان میں دفن نہ ہو یا اللہ ہمیں اس سے بچا لے یہ سن کر میں نے ایک مردے سے پوچھا ماجرا کیا ہے تم یہ دعا کیوں کر رہے ہو اس نے بتایا جو عورت آج مری ہے وہ جہنمی ہے اگر یہ قبرستان میں دفن کر دی گئی تو ہمیں اس کا عذاب دیکھنے میں تکلیف ہو گی اس لیے ہم گریہ بازاری کر رہے ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے ہیں یہ سن کر میں بیدار ہو گیا اور سخت معتجب ہوا صبح ہوئی تو قبرستان کی طرف نکلا اور دیکھا کہ گورکن قبر کھودنے والے قبر کھو چکے ہیں میں نے ان سے پوچھا یہ کس کے لیے بنائی گئی ہے انہوں نے بتایا ایک مالدار تاجر کی بیوی فوت ہو گئی ہے اس کے لیے قبر کھودی گئی ہے میں نے ان کو والا منظر بتا دیا قبر کھودنے والوں نے واقعہ سن کر قبر بند کر دی اب میں انتظار کرنے لگا کہ کیا ہوتا ہے تھوڑی دیر گزری تو چند آدمی آئے اور گورکنوں سے پوچھا قبر تیار ہو گئی انہوں نے جواب میں کہا یہاں پر قبر نہیں بن سکتی کیونکہ نیچے کیچڑ ہے وہ آدمی یہ سن کر دوسرے ڈیرے پر چلے گئے چونکہ وہاں بھی خواب والی بات پہنچ چکی تھی اس لیے انہوں نے قبر کھودنے سے صاف انکار کر دیا.
پھر وہاں سے وہ آدمی کسی دوسرے قبرستان گئے اور وہاں قبر بنوائی. پھر میں جنازے کی آمد کا انتظار کرنے لگا. اچانک شور اٹھا جنازہ آ رہا ہے. میں بھی جنازے کے ساتھ ہو گیا. مجھے بتایا گیا کہ یہ اس عورت کا بیٹا ہے. اس کی اور اس کے باپ کی تعزیت کی جا رہی تھی. جب مجھے دفن کر دی گئی تو میں ان دونوں کے قریب گیا اور کہا میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے.
اگر اجازت ہو بیان کر دوں یہ سن کر باپ نے یعنی مرنے والے کے خاوند نے کہا مجھے خواب سننے کی ضرورت نہیں لیکن لڑکے نے کہا سنائیے میں اسے تخلیہ میں لے گیا اور خواب بیان کر دیا پھر اسے کہا مجھے چاہیے کہ تو اس بات کی تفتیش کرے اور وجہ معلوم کرے کہ کیوں قبر والوں نے گڑگڑا کر دعائیں کی ہیں اس نوجوان نے کہا اور تو مجھے معلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میری ماں شراب نوشی کرتی تھی اور گانے سنتی تھی نیز دیگر عورت پر بہتان لگایا کرتی تھی مگر یہ کام اتنے سنگین نہیں کہ یہاں تک بات پہنچ جائے کہ مردے کی دعائیں کریں کہ یہ ہم میں دفن نہ ہو ہمارے ہاں گھر کی ایک بوڑھی عورت ہے جس کی عمر ننانوے سال ہے وہ میری ماں کی دایا اور خدمت گار تھی اگر آپ چاہیں تو چلیں چل کر اس سے پوچھیں شاید وہ میری ماں کا کردار جانتی ہو پھر ہم دونوں اس نوجوان کے گھر گئے اس نوجوان نے مجھے ایک بالا خانے میں داخل کر دیا وہاں مومن خاتون تھی اس نوجوان نے بڑھیا کو میری طرف متوجہ کیا میں نے خیاب بیان کر کے پوچھا ماں کیا تیرے پاس کچھ معلومات ہیں یہ سن کر بڑھیا نے کہا میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ اسے بخش دے وہ عورت بہت زیادہ بدکار تھی اس پر نوجوان نے بڑھیا سے پوچھا کیا میری ماں شراب نوشی کا نہ سننے اور عورتوں پر بہتان لگانے کے سوا بھی کوئی گناہ کرتی تھی بڑھیا نے کہا اگر بیٹا تو برا نہ مانے تو میں بتا دیتی ہوں کیونکہ اس آدمی نے خواب بیان کیا ہے یہ تیری ماں کے گناہوں کے سامنے معمولی ہے یہ سن کر نوجوان نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تو ہمیں بتائے تاکہ ہم ایسے کردار سے بچ جائیں اور عبرت حاصل کریں یہ سن کر بڑھیا رونے لگی خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں کئی سال سے توبہ کر چکی ہوں اور مجھے امید تھی کہ تیری ماں بھی توبہ کر لے گی مگر اس نے توبہ نہیں کی اب میں تمہیں تین کارنامے تیری ماں کے سناتی ہوں تو اس بڑھیا نے اس عورت کے لڑکے کو مخاطب کر کے کہا تیری ماں بہت بڑی بدکار تھی ہر دن ایک دو نوجوان اس کے گھر آتے جن سے وہ اپنی خواہش پوری کرتی اور تیرا باپ بازار میں کام کرتا پھر تو جب جوانی کو پہنچا تو تو نے نوجوان تھا میں دیکھا کرتی تھی کہ تیری ماں تیری طرف شہوت کی نظر سے دیکھا کرتی تھی حتیٰ کہ ایک دن تیری ماں نے مجھے کہہ دیا کہ میں اپنے بیٹے پر فریفتہ ہو گئی ہوں لہذا کسی طریقے سے اس کو میری طرف راغب کر میں نے سن کر تیری ماں سے کہا بیٹی یہاں تک کیوں جاتی ہے تیرے لیے بہت سارے نوجوان ہیں جن سے تو اپنی خواہش پوری کرا سکتی ہے لہذا بیٹی تو اللہ سے ڈر اور اس ارادے سے باز آ تیری ماں کہتی تھی نہیں مجھے اس کے سوا صبر نہیں تو میں نے تیری ماں سے پوچھا تو اس مقصد میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے حالانکہ تیرا بیٹا ابھی نوعمر ہے تو خواہ مخواہ بدنام ہو گی لہذا خدا کے لیے اس ارادے سے باز آجا تیری ماں نے مجھ سے کہا ماں تو میری مدد کرے تو میں کامیاب ہو سکتی ہوں میں نے پوچھا کیا جائے؟ تیری ماں نے کہا فلاں گلی کے مکان میں ایک عارضی نویس ہے وہ رک کے خط لکھ کر مردوں کو عورتوں سے ملاپ کرواتا ہے اور اجرت لیتا ہے تو اس کو کہو کہ وہ میرے بیٹے کو تحریر لکھے اور نام لیے بغیر کہے کہ ایک دوشیزہ تجھ سے عشق کی حد تک محبت کرتی ہے وہ تجھ سے فلاں جگہ فلاں وقت ملاپ چاہتی ہے اس بوڑھی عورت نے کہا میں نے ایسا ہی کیا اور جب تجھے میں نے وہ خط دیا تو تو بھی فریختہ ہو گیا اور تو نے لکھ دیا کہ مجھے منظور ہے فلاں وقت میں آ جاؤں گا تو میں نے تیری ماں کو بخت لا کر دے دیا تیری ماں نے جواب پڑھ کر کہا اماں تو میرے بیٹے سے کہو کہ فلاں وقت فلاں جگہ آ جائے اور تو فلاں بھلا خانہ اچھی طرح تیار کر اور اس میں پھل اور خوشبو وغیرہ کا انتظام بھی کر اور تو میرے بیٹے کو یہ بھی کہے کہ جس عورت نے تجھے بلایا ہے وہ ابھی دوشیزہ ہے وہ روشنی پسند نہیں کرتی بلکہ یہ کام اندھیرے بہتر ہے تاکہ تمہارے والدین کو تم پر شک نہ گزرے پھر میں تیرے پاس آئی تو نے یہ بات مان لی اور رات کا وقت مقرر ہو گیا میں نے تیرا جواب تیری ماں کو پہنچایا تو اس نے بہترین کپڑے پہنے عمدہ خوشبو لگائی اور وہ اس بالا خانہ میں پہنچ گئی اور تو بھی وہاں پر پہنچ گیا اور پھر داد و عیش سحری تک جاری رہا پھر تو وہی سو گیا تو میں نے صبح کے وقت آ کر تجھے جگایا پھر چند دنوں کے تیری ماں نے مجھ سے کہا اماں میں اپنے بیٹے سے حاملہ ہو گئی ہوں اب میں کیا کروں میں نے کہا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ تو کیا کرے لیکن تیری ماں کسی ہلے بہانے سے تجھ سے اپنی خواہش پوری کرتی رہی حالانکہ ولادت کا وقت قریب آگیا تو تیری ماں نے تیرے باپ سے کہا کہ میں بیمار ہوں میں چاہتی ہوں کہ کچھ دن اپنی ماں کے پاس رہ جاؤں تو تیرے باپ نے اجازت دے دی پھر میں اور تیری ماں تیری نانی کے گھر چلی گئی وہاں ایک میں رہائش رکھ لی اور جب ولادت کا وقت آیا تو میں ایک دیا کو بلا کر لائی تو تیری ماں کے ہاں بچہ پیدا ہوا جو کہ تیری ماں نے مار دیا اور پھر ہم نے وہ بچہ دفن کر دیا کچھ دن گزرے کہ تیری ماں نے مجھے کہا اب میں پھر اپنے بیٹے سے خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں میں نے کہا بیٹی جو کچھ ہو گیا وہ تیرے لیے کافی نہیں تیری ماں نے کہا مجھے صبر نہیں ہے اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا پھر جب بڑھیا دوسرا واقعہ سنانے لگی تو اس عورت کے بیٹے نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی اماں بس کرو اتنا ہی کافی ہے اللہ تعالی میری ماں پر **** کرے اور ساتھ تجھ پر بھی **** ہو یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور میں بھی اس کے ساتھ اٹھ کر باہر آگیا کاش وہ بڑھیا دوسرے دو واقعات بھی سنا دیتی اندازہ کیجیے کہ جب انسان کی شرم و حیا ختم ہو جائے تو وہ کس قدر پستی میں چلا جاتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس سے سبق حاصل کریں آج کل فیس بک انٹرنیٹ ٹک ٹاک اس طرح کی ایپلیکیشن جب عام ہو جائیں جب موبائل فون ہر لڑکی کے ہاتھ میں آجائے جب انٹرنیٹ کی دنیا تک ہر لڑکی کی رسائی آسان ہو جائے اس سے واقعات ہونا کوئی بڑی بات نہیں محترم ناظرین ایک مرتبہ پھر بتاتا چلوں کہ یہ کوئی من گھڑت یا فرضی کہانی نہیں بلکہ ایک سچا واقعہ ہے جو کہ کتاب زمل حوی میں لکھا گیا ہے آپ چاہیں تو اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں انہی لفظوں کے ساتھ میں اجازت چاہوں گا اس امید کے ساتھ کہ سانسوں نے وفا کی تو اگلی بار کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا تب تک کے لیے خدا حافظ اللہ پاک آپ سب کا حافظ و نگہبان ہنستے رہیے اور ہمیشہ مسکراتے رہیے
Leave a Comment