امام حسن کے جنازے پر تیر کس نے چلائے؟ شہادت امام حسین علیہ السلام شہادت امام حسن علیہ السلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ناظرین ناظرین حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام کو زہر کس نے دیا تھا شہادت سے پہلے آپ نے کیا وصیت فرمائی تھی جودہ بنت اشعص کون تھی امام حسن علیہ السلام کے جنازے پر تیر کیوں برسائے گئے تھے یہی آج ہم آپ کو امام حسن ابن علی علیہ السلام کی شہادت کی انتہائی دردناک داستان سنائیں گے ناظرین امام حسن علیہ السلام ابن علی کرم اللہ وجہہ الکریم ابن ابی طالب امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دختر حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے سب سے بڑے بیٹے اور امام علی مقام امام حسین ابن علی علیہ السلام کے بڑے بھائی تھے اہل سنت ان کو پانچواں خلیفہ راشد جبکہ اہل تشیع امام حسن ابن علی علیہ السلام کو دوسرا امام مانتے ہیں۔ ہجرت کے تیسرے سال رمضان المبارک کے مہینے میں نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولادت امام حسن علیہ السلام کی خبر ہوئی۔ تو آپ اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ میرا نواسہ مجھے دکھاؤ۔ پھر پوچھا کہ کیا نام رکھا گیا ہے؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرب نام رکھا ہے فرمایا نہیں اس کا نام حسن ہے پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور دو مینڈوں کی قربانی کر کے سر کے بال اتروائے گئے اور ان کے ہم وزن چاندی خیرات کی گئی حضرت امام حسن علیہ السلام کے والد جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی وفات کے بعد خلافت کے لیے امام حسن علیہ السلام کو منتخب کیا گیا لیکن چھ یا سات ماہ کے بعد آپ نے حکومت حضرت معاویہ ابن ابو سفیان کے سپرد کر دی اور حضرت معاویہ ابن ابو سفیان کے دور میں خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی اور وہ دولت بنی امیہ کے بانی قرار پائے ناظرین امام حسن علیہ السلام کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اکیس رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر سینتیس سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تدفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن علیہ السلام کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کر لی۔ جن کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ یہ واقعہ اکیس رمضان سن چالیس ہجری یوم جمعہ کا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی سب نے انتہائی خوشی اور رضامندی کے ساتھ بیعت کی اور یوں آپ نے انتظام حکومت اپنے ہاتھ میں لیا اطراف میں اعمال مقرر کیے حکام متعین کیے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے تو آپ نے تخت حکومت کو خیرآباد کہہ دیا کیونکہ امام حسن ابن علی علیہ السلام کا واحد مقصد حکم خدا حکم رسول کی پابندی تھی۔ امام حسن ابن علی علیہ السلام نے دین خدا کی سربلندی کے لیے اور فتنہ و فساد کا سر کچلنے کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپنے نانا رسول خدا امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ کی صلح حدیبیہ کی تعصی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش باب ہے جس نظیر نہیں ملتی اگرچہ اس صلح کی کچھ شرائط ایسی تھیں جن پر عمل نہیں کیا گیا امام حسن ابن علی علیہ السلام اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہو گئے تھے لیکن حق کے مرکز اور تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرچشمہ امام عالی مقام امام حسن ابن علی کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لیے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ناظرین امام حسن ابن علی علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کرنے کا واقعہ انتہائی دردناک ہے روایات کے مطابق کسی شخص نے حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے دونوں چشم کے درمیان یہ آیت قل ہو اللہ احد لکھی ہوئی ہے آپ کے اہل بیت میں سے یہ بات جب ہر ایک کو پتہ چلی تو وہ خوش ہوا لیکن جب یہ خواب سعید بن مسعب رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے بیان کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ واقعی اگر یہ خواب دیکھا گیا ہے تو امام کی عمر کے چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں یہ تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور اس کے بعد بہت جلد امام حسن ابن علی علیہ السلام کو زہر دیا گیا زہر کے اثر سے اس حال کبیدی لاحق ہوا اور آنتوں کے ٹکڑے کٹ کٹ کر اس حال میں خارج ہوئے اس میں آپ کو چالیس روز سخت تکلیف رہی قریب شہادت جب آپ کی خدمت میں آپ کے برادر عزیز امام عالی مقام امام حسین ابن علی علیہ السلام نے حاضر ہو کر پوچھا اے میرے بھائی آپ کو کس نے زہر دیا ہے تو فرمایا اے حسین کیا تم اسے قتل کرو گے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بے شک جس پر امام حسن ابن علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا گمان جس کی طرف ہے درحقیقت وہی قتل ہے تو اللہ تعالی منتقم حقیقی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے اور اس کا اور میرا فیصلہ بروز محشر ہوگا اور اگر وہ نہیں ہے تو میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے کوئی بے گناہ مبتلا مصیبت ہو مجھے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ کا زہر سب سے تیز اور سب سے سخت ہے روایات کے مطابق وہ زہر اتنا سخت تھا کہ امام عالی مقام امام حسن ابن علی علیہ السلام کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے انتہائی تکلیف میں مبتلا تھے مگر پھر بھی قاتل کا نام نہ بتایا ناظرین حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام کو زہر دینے کے حوالے سے تاریخ میں کئی روایات موجود ہیں اہل تشیع کے مطابق حضرت معاویہ ابن ابو سفیان نے امام حسن ابن علی علیہ السلام کی زوجہ جو کہ اشعص بن قیس کی بیٹی تھی اور جس کا نام جودا تھا اس کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ حسن ابن علی کو زہر دے دے گی تو وہ اس کی شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دے گا حضرت معاویہ ابن ابو سفیان نے جودہ بنت اشعص کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک لاکھ درہم بھی اس کو بھیجے جودہ بنت اشعص نے قبول کر لیا کہ وہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو شہید کر دے گی اگرچہ معاویہ ابن ابو سفیان نے اس کی شادی یزید سے نہیں کی اس حوالے اہل سنت کے ہاں ان روایات کو مسترد کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ من گھڑت روایات ہیں۔ حضرت امام حسن ابن علی نے کسی بھی شخص کا نام نہیں لیا کہ ان کو کس نے زہر دیا۔ مگر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کی طرف ان کا گمان تھا وہ حضرت معاویہ ابن ابو سفیان تھے۔ واللہ اعلم بالثواب۔ ناظرین اس حوالے سے اہل تشیع اس روایت کا حوالہ دیتے ہیں جو اہل سنت اور اہل تشیع کی اکثر کتابوں میں سند کے ساتھ موجود ہے کہ شام میں جب معاویہ ابن ابو سفیان کو حضرت حسن ابن علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی۔ تو ان کے دربار میں ایک شخص نے حضرت حسن ابن علی علیہ السلام کی شہادت پر ان للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو حضرت معاویہ نے کہا کہ حضرت حسن ابن علی کی شہادت کوئی غم کی خبر نہیں اس لیے انہوں نے اس شخص کو ان للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے سے منع کیا مگر ادھر امام حسن ابن علی علیہ السلام کی کرامت اور منزلت کیسی بلند و بالا ہے کہ سخت تکلیف میں مبتلا ہیں جگر کٹ کٹ کر گر رہا ہے نزع کی حالت میں ہے مگر انصاف کا بادشاہ اس وقت بھی اپنی عدالت و انصاف کا نہ مٹنے والا نقش صفحہ پر سبط فرماتا ہے اس کی احتیاط اجازت نہیں دیتی کہ جس کی طرف گمان ہے اس کا نام بھی لیا جائے اس وقت آپ کی عمر تقریبا پینتالیس سال چھ ماہ چند روز تھی آپ نے پانچ ربیع الاول سن انچاس ہجری کو اس دنیا فانی سے رخصت فرمائی اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ان للہ وانا الیہ راجعون وفات کے قریب امام حسین ابن علی علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کے بھائی امام حسن ابن علی کو گھبراہٹ اور بے قراری زیادہ تو ان کا دل بہلانے کے لیے فرمایا میرے بھائی بے قرار کیوں ہو مبارک ہو آپ کو عنقریب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں باریابی حاصل ہوگی اور حضرت علی المرتضی اور حضرت خدیجہ الکبری اور فاطمۃ الزہرا اور قاسم و طاہر اور حمزہ و جعفر سے ملاقات ہو گی حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بھائی میں کچھ ایسے مراحل دے رہا ہوں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے اور اس کے ساتھ ہی آپ نے امام حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور کوفیوں کی بدسلوکی اور ثانی کا بھی ذکر کیا اس ارشاد مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی نظر کے سامنے کربلا کا ہولناک منظر بھی تھا اور امام حسین ابن علی علیہ السلام کی تنہائی کا نقشہ بھی تھا اور کوفیوں کے مظالم کی تصویریں آپ کو غمگین کر رہی تھی اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے درخواست کی ہے کہ مجھے روضہ رسول میں دفن کیا جائے انہوں نے منظور کیا میری وفات کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا جائے لیکن میں گمان کرتا ہوں کہ یہ قوم منع کرے گی بنو امیہ یہ نہیں چاہتی اگر بنو امیہ نے ایسا کیا اور تکرار کیا تو اے حسین ابن علی آپ کو میری یہ وصیت ہے کہ آپ تلوا اٹھانا اور امن کا راستہ اختیار کرنا اور عزت اور کرامت کے ساتھ ان کی بات کو منظور کر لینا اسی طرح ہوا مروان بن حاکم کے حکم پر حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام کے جنازے پر تیر برسائے گئے تاکہ ان کو روضہ رسول کے اندر دفن نہ ہونے دیا جائے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام نے بھی جلال میں آ کر تلوار picked up حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بھائی کی وصیت یاد کروائی اور یہ رسول جگر گوشہ بتول سیدنا امام حسن ابن علی علیہ السلام اپنی والدہ محترمہ خاتون جنت سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیے گئے ناظرین مورخین نے زہر خورانی کی نسبت جودہ بنت اشعص ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو امام حسن ابن علی علیہ السلام کی زوجہ آیا ہے مگر امام حسن مجتبی علیہ السلام کو زہر دینے کے حوالے سے مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار کے ساتھ سچی محبت نصیب فرمائے اسی امید کے ساتھ اجازت دیجیے

Related Content

قوم سبا کا واقعہ اللہ کا عذاب اسلامی کہانیاں | اسلامی

قوم سبا کا واقعہ اللہ کا عذاب اسلامی کہانیاں | اسلامی

Leave a Comment