ذرا تصور کیجیے مکہ مکرمہ کے وہ گلی کوچے جہاں آج ہر طرف روشنی اور عبادت کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ کبھی انہی راستوں پر بڑے بڑے سردار تاجر اور قریش کے مشہور گھرانے زندگی بسر کرتے تھے۔ کعبہ کے آس پاس بکھرے ہوئے ان گھروں میں وہ شخصیات رہتی تھیں۔ جو وقت کے سب سے طاقتور اور با اثر افراد میں سے تھیں۔ ان میں کوئی رحم دل سخی تھا تو کوئی سخت دشمن کوئی دولت مالک تھا تو کوئی دانشمند مشیر۔ لیکن ایک وقت آیا کہ جب انہی گلیوں میں وہ آوازیں گونجیں جس نے ان سرداروں کے دلوں میں خوف اور حیرت پیدا کر دیں۔ یہ دعوت اسلام تھی۔ جو دلوں کو جھنجھوڑنے اور سوچ کو بدلنے آئی تھیں۔ عبداللہ بن مطلب کا گھر ابو طالب کے وادی ابوجہل کا قلعہ نما مسکند اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا محل سبھی اسلامی تاریخ کے گواہ بن گئے۔ آئیے چلتے ہیں کے اس سفر پر جہاں اسلام کی پہلی کرن طلوع ہوئی اور مکہ کے یہ سردار یہ رہائش گاہیں اور ان کا تاریخی پس منظر آج بھی ہمیں مکہ کی پرانی تاریخ اور اس میں چھپے ان کہانیوں کی بعض گزشتہ سناتے اسلام سے پہلے مکہ مکرمہ کے اہم سردار اور شخصیات کے گھروں کے متعلق کافی دلچسپ معلومات موجود ہیں قبیلہ قریش جس کا اسلام سے پہلے مکہ میں بڑا اثر و رسوخ تھا کئی شاخوں اور خاندانوں میں ہوا تھا ان میں سب سے معروف شاخیں بنی ہاشم بنی امیہ بنی مغظوم اور بنی عبدالطار کی تھیں آئیے ان سرداروں کے چند مشہور افراد اور ان کے گھروں کے بارے میں جانتے ہیں عبدالمطلب بن ہاشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب مکہ میں انتہائی با اثر اور معزز شخصیت تھے ان کا گھر کعبہ کے قریب واقع تھا
اور وہ اپنے عہد کے دوران کعبہ کے خدمت گار اور قریش کے سردار تھے عبدالم نے زم زم کا کنواں دوبارہ دریافت کیا۔ اور حاجیوں کو پانی پلانے کی روایت شروع کی۔ ابو طالب بن عبدالمطلب حضرت ابو طالب جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے اور آپ کی پرورش کی ذمہ داری بھی انہوں نے نبھائی۔ ان کا گھر شابو طالب میں تھا۔ یہ علاقہ مکہ کے قریب ایک وادی میں واقع تھا۔ اور جب قریش نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کیا۔ تو انہیں اسی میں محصور کر دیا گیا تھا۔ ابو سفیان بن حرب ابو سفیان بن حرب قریش کے قبیلے بنی امیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا گھر حرم کے مشرقی جانب تھا۔ وہ اسلام سے پہلے قریش کے بڑے سردار تھے اور اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے خلاف اہم معرکوں میں شامل رہے۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی بن گئے۔ اور ابو جہل اسلام سے پہلے کے مکہ مکرمہ کی معاشرت اور وہاں کے سرداروں کے مکانات کے مقام کی تفصیلات نہایت اہم ہیں کیونکہ ان سے نہ صرف اس دور کے سماجی اور قبائلی ڈھانچے کی سمجھ آتی ہے بلکہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات کا بھی پتہ چلتا ہے نوفل بن حویلی نوفل بن حویلی کا تعلق قبیلہ بنو اسد سے تھا اور وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے ان کا گھر بنی اسد کے علاقے میں تھا
جو حرم کے جنوب مغربی جانب واقع تھا نوفل کی شخصیت بھی قریش میں بہت معزز تھی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان کا گھر مکہ کے معزز سرداروں کا ایک اہم مرکز رہا اور ان کا مقام مکہ کی سیاسی اور سماجی زندگی میں خاصی اہمیت کا حامل تھا عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ عتبہ اور شیبا دونوں کا تعلق قبیلہ بنی عبدالشم سے تھا اور یہ دونوں کے ممتاز سردار تھے ان کا گھر مسجد الحرام کے قریب واقع تھا اور یہ دونوں بھی اسلام کے سخت مخالفین میں شامل تھے عتبہ بن ربیع کی موت جنگ بدر میں ہوئی جب کہ شیبا بعد میں اسلام قبول کر کے نبی اکرم کے ساتھ شامل ہو گئے امیہ بن ابی السلد امیہ بن ابی السلد قبیلہ بنی ثقافی کے ایک شاعر اور فلسفی تھے ان کا تعلق اگرچہ طائف سے تھا لیکن مکہ میں بھی ان کی بہت عزت تھی امیہ نبی السلد کا گھر طائف میں تھا۔ جو مکہ مکرمہ سے تقریبا پچاسی کلومیٹر دور ہے۔ ان کی شاعری میں بھی اسلام سے پہلے کے مذہبی اور فلسفیانہ خیالات کا اظہار ملتا ہے۔ ولید بن مغیرہ ولید بن مغیرہ قبیلے بنی مخصوم سے تھے اور اپنے وقت کے انتہائی دولت مند لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا گھر حرم کے مغربی جانب موجود تھا۔ ولید نے مسلمانوں کے خلاف کئی سازشیں کیں اور ان کا کردار اسلام کے خلاف تھا۔ مکہ کے حصے میں ان کا بڑا اور شاندار گھر اسلام سے پہلے قریش کی دولت اور رتبے کا نمونہ تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلے بنی تین سے تھا اور ان کا گھر مسجد الحرام کے جنوب میں واقع تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کو مکہ کے امن پسند اور دیانتدار لوگوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کو مسلمانوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال اور ان کی سخاوت اور اخلاق کی وجہ سے انہیں بڑی عزت حاصل تھی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تعلق بنی عدی سے تھا۔ ان کا گھر مکہ کے شمالی حصے میں واقع تھا۔ جو کہ کعبہ سے کچھ ہی دور تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے ابتدائی دشمنوں میں شامل تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے نبی اکرم کی جماعت کو بہت تقویت پہنچائی۔ حضرت بن عبدالمطلب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم کے چچا تھے اور ان کا گھر کعبہ کے مشرقی جانب واقع تھا ان کا گھر تجارت کا مرکز تھا اور اسلام کے بعد انہوں نے نبی اکرم کا ساتھ دیا حضرت عباس کی شخصیت اور ان کا مقام مسلمانوں کے لیے بڑا اہم تھا اور ان کے گھر کو اسلامی روایات میں ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے عبداللہ بن ابیربی عبداللہ بن ابی ربیہ جو بنی مغزوم سے تھے ان کا گھر مسجد الحرام کے قریب تھا ان کی شہرت کے سرداروں میں ایک مدبر اور با اثر شخصیت کے طور پر تھے۔ ان کا مکان مکہ کے مشرقی حصے میں تھا جہاں ان کی شخصیت قریش کے تجارتی اور سیاسی امور میں بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ دار ندویٰ دار ندویٰ مکہ کے تمام قبائل کا مشترکہ مشورے کا مقام تھا۔
جسے مسجد الحرام کے قریب شمال مغربی جانب میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دار ندویٰ حضرت قصاب انقلاب نے تعمیر کیا تھا۔ اور یہاں قریش تمام اہم امور پر بحث ہوتی تھی بشمول امن و امان جنگی حکمت عملی اور مذہبی تقریبات کے معاملات مکہ میں یہ مختلف سرداروں کے گھر موجود الحرام یا کعبہ کے اردگرد موجود تھے جو کہ اس وقت کا سب سے مقدس اور مرکز توجہ مقام تھا قریش کے سردار اپنی اپنی شاخوں کے لحاظ سے مخصوص علاقوں میں مقیم تھے جس سے قبائلی تقسیم اور معاشرتی اثر و رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے اس علاقے کا سب سے بڑا اور نمایاں مقام مکہ ہی تھا اور یہ سبھی کعبہ سے کسی نہ کسی طرح جڑے رہتے جس سے ان کے معاشرتی مقام اور قبیلے کی شناخت مضبوط ہوتی تھی یہ تاریخی مقامات آج کے مقام و کرمہ میں نہیں رہے کیونکہ حرم اور اس کے اطراف میں جدید تعمیرات ہو چکی ہیں لیکن ان مقامات کے ذکر سے ہمیں اس وقت کے معاشرتی نظام ثقافتی اور سیاسی منظر نامے کا پتہ چلتا ہے اس سے اسلام کے ابتدائی دور کی آزمائشیں اور مشکلات بھی واضح ہوتی ہیں ابو جہل جو اسلام کے سب سے بڑے مخالفین میں سے تھے ان کا تعلق بنی مخزوم سے تھا اور ان کا گھر کعبہ مغربی جانب واقع تھا ان کے گھر کی پوزیشن اور ان کا کردار انہیں قریش کے بڑے سرداروں میں شامل کرتا تھا وہ مسلمانوں کے خلاف متعدد سازشوں میں شامل رہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن کا گھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن بنی ہاشم کے علاقے میں گزرا جہاں عبدالمطلب اور ابو طالب کے گھروں کے قریب ان کی رہائش تھی ان کی زندگی واقعات اسی علاقے میں وقوع پذیر ہوئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جو اسلام سے پہلے مکہ کی ایک معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ ان کا گھر حرم کے قریب تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام سے قبل ان کے ساتھ شادی کی اور ان کا گھر بعد میں اسلامی تاریخ کا ایک اہم مقام بن گیا۔ ابو لہب ابو لہب جن کا اصل نام عبدالعزا بن عبدالمطلب تھا۔ حضرت محمد اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے لیکن ان کا شمار اسلام کے سب سے بڑے مخالفین میں ہوتا ہے ان کا گھر کعبہ کے قریب بنی ہاشم کے علاقے میں واقع تھا ان کی زندگی بھر کی مخالفت کے باوجود اللہ نے قرآن مجید میں ان کا ذکر کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسلام کی ابتدائی دعوت دی تو ایک خفیہ مرکز کی ضرورت پیش آئی جہاں مسلمان آزادی سے عبادت کر سکیں مقصد کے لیے دار ارقم کا انتخاب کیا گیا جو کہ حضرت ارقم بن ابی الارقم کا گھر تھا۔ یہ گھر صفا پہاڑی کے قریب تھا اور اسے ابتدائی اسلام کی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مکہ کے یہ علاقے اس زمانے میں معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتے تھے۔ کعبہ کے قریب واقع مکانات قریش کے معزز خاندانوں کا مرکز تھے۔ جو شہر کے تجارتی اور مذہبی معاملات میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔ مکہ میں قریش کے سرداروں کے گھروں کا محل وقوع نہ صرف ان کی حیثیت کو ظاہر کرتا تھا بلکہ عرب معاشرت میں قبائل کے تعلقات اثر و رسوخ اور جنگ و امن کے معاملات میں بھی اہم تھا مکہ کی ان مخصوص جگہوں کا ذکر اسلام کی ابتدائی تاریخ کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ ان سرداروں کے رہائشی علاقوں سے مسلمانوں کے ابتدائی مراحل میں ان پر جو آزمائشیں آئیں ان کا پتہ چلتا ہے
Leave a Comment