پتھر کی شہزادی کی عجیب کہانی

پتھر کی شہزادی کی عجیب کہانی پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک کا ایک شہزادہ تھا الماس.

الماس آوارہ, بے رحم اور ضدی شہزادہ تھا.

بادشاہ کی وفات کے بعد وہ تخت نشین ہوا. تو وزیروں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد یہ صلاح ٹھہرائی. کہ اگر الماس شہزادے نے رعایا کے ساتھ ناانصافی کا برتاؤ کیا. تو ہم سب وزارت سے علیحدہ ہو جائیں گے.

وزیراعظم ہمایوں اگرچہ نوجوان تھا. لیکن بہت ہی ہوشیار, عقلمند اور دور اندیش تھا. اس نے بوڑھے تجربہ کار وزیروں سے کہا. آپ لوگ وزارت سے علیحدہ ہونے کا خیال دل سے نکال دیجیے. اور اپنی عقل مندی سے شہزادہ الماس جو اب بادشاہ بن چکا ہے. اس کو سیدھے اور سچے راستے پر لے آئیے. چونکہ آپ لوگوں کے علیحدہ ہونے کے بعد وہ نئے وزیر مقرر کرے گا. وہ سب اسی کے اشارے پر چلیں گے. پھر رعایا ہرگز خوشحال نہ رہ سکے گی. یہ بات سارے وزیروں کی سمجھ میں آگئی. اور انہوں نے وزارت سے علیحدہ ہونے کا خیال دل سے نکال دیا .دوسرے دن شاہ الماس نے وزیروں سے کہا ہم اپنا خزانہ دیکھنا چاہتے ہیں

لہذا ہمیں اسی وقت ساتھ لے کر چلو. وزیروں کو بھلا کیا انکار ہوتا.

وہ بادشاہ الماس کو تہہ خانے میں لے گئے. جہاں سات کمرے تھے اور ہر کمرے کے دروازے میں تالا پڑا ہوا تھا. پہلا دروازہ چھوڑ کر جب وزیر دوسرے دروازے کی طرف بڑھنے لگے. تو بادشاہ الماس نے کہا. اس پہلے کمرے کو تم لوگوں نے کیوں چھوڑ دیا? وزیراعظم نے عرض کی جہاں پناہ اس کمرے کو رہنے ہی دیجیے اس میں کوئی خاص چیز نہیں ہے. الماس بولا اگر اس میں کوئی خاص چیز نہیں ہے تو اس کے دیکھنے میں کیا حرج ہے.

ہمایوں وزیر نے کہا جاں پناہ اگر اس کمرے میں خزانہ ہوتا تو یہ غلام اسے ضرور دکھا دیتا. الماس نے غصے میں آ کر کہا یہ عجیب بات ہے کہ اس میں کچھ ہے بھی نہیں اور اسے کھولتے بھی نہیں. میرا حکم ہے کہ اسے کھولو. میں اسے دیکھنے بعد آگے چلوں گا. ہمایوں وزیر نے ہاتھ باندھ کر ادب سے عرض کی جاں پناہ آپ کے والد صاحب کی وصیت ہے کہ اس کمرے کو اس وقت تک نہ کھولا جائے. جب تک آپ کی عمر چالیس سال کی نہ ہو جائے. لہذا آپ اسے نہ کھلوائیے.

الماس نے فرش پر پاؤں مارتے ہوئے کہا ہم اس وصیت پر ہرگز عمل نہیں کریں گے. اس کمرے کو فورا کھولا جائے.

وزیراعظم نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے. اور کمرے کا مضبوط تالا کھلوا دیا. شاہ الماس میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ فرش پر نہایت خوش رنگ اور خوش وضع کے قالین بچھے ہوئے ہیں. چاروں طرف ہلکے نیلے رنگ کے ریشمی کپڑے لٹکے ہوئے ہیں اور درمیان میں سنگ مرمر کا ایک بت کھڑا ہوا ہے. الماس نے بت کے سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا.

ہمایوں وزیر بولا تشریف لے چلیے. جہاں پنا یہ تو ایک معمولی بت ہے. اسے دیکھنے سے کیا حاصل.

الماس نے کہا یہ کس عورت کا بت ہے.

ہمایوں یہ ریاست مہر آباد کی شہزادی کا بت عالم بنا الماس نے کہا بے حد حسین و جمیل عورت ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ والد صاحب نے یہ بت کیوں بنوایا تھا اس نے عرض کی عالم پناہ گستاخی معاف وہ اس شہزادی کو اپنی ملکہ بنانا چاہتے تھے لیکن یہ شہزادی ایک زبردست جادوگرنی بھی ہے اس لیے وہ ان کے قبضے میں نہ آ سکی آخر انہوں نے اس کا بت بنوا کر یہاں رکھ لیا تھا اور دن میں دو بار اسے دیکھا کرتے تھے الماس لگا یہ شہزادی ہمیں نہیں مل سکتی.

ہمایوں بولا اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے حضور.

چونکہ اب تک سینکڑوں نوجوان جن میں شہزادے اور بادشاہ بھی شامل تھے. اس کے پاس پہنچے. مگر ان میں سے ایک بھی واپس لوٹ کر نہیں آیا. الماس کہنے لگا کیا تم بھی اس کے پاس نہیں جا سکتے.

ہمایون نے جواب دیا. وہاں جانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے. لیکن واپس آنا ناممکن ہے. چونکہ نہیں معلوم کہ وہ جانے والوں کو قتل کر دیتی ہے.

یا جادو کے عمل سے انہیں غلام بنا لیتی ہے. الماس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تم آج ہی روانہ ہو جاؤ. ہم ایک ہفتہ تک تمہاری واپسی کا انتظار کریں گے. اگر ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی تم واپس نہ آئے تو ہم اپنی فوج لے کر ریاست مہر آباد پر حملہ کر دیں گے اور تم کو آزاد کروا لیں گے.

ہمایوں نے کہا اگر اس نے مجھ پر جادو کر دیا تو کیا ہوگا? الماس بولا ہمارے مصائبوں میں سے مرزا انگوری انہیں ساتھ لے انہیں جادو کا توڑ آتا ہے. ہمایوں وزیر نے چونک کر کہا مگر عالم پناہ مرزا صاحب تو افیمی ہیں. انہیں ساتھ لے جانے سے کیا فائدہ? الماس بولا نہیں نہیں وہ تمہاری مدد کریں گے. انہیں ساتھ ضرور لے جاؤ.

غرض یہ کہ بادشاہ خزانہ دیکھنے کے بجائے واپس آ گیا. اور وزیراعظم ہمایوں اور مرزا انگوری کو اپنے خاص ہاتھی پر سوار کر کے مہر آباد کی جانب روانہ کر دیا. محبت کی جگہ وزیراعظم خود بیٹھ گیا. اور مرزا انگور حدج میں بیٹھ گئے. دونوں ہاتھی کو دوڑاتے ہوئے صحراؤں اور جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے چلے جا رہے تھے.

مرزا انگوری تو ہدج میں لیٹ گئے تھے لیکن ہمایوں ہوشیاری سے بیٹھا ہوا تھا. تین روز کا سفر طے کرنے کے بعد وہ ریاست مہر آباد کے دروازے پر پہنچ گئے. پہرے داروں نے ان سے ریاست میں داخل ہونے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے کہا ہم شہزادی صاحبہ سے ملنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں. پہرے داروں نے ہمایوں سے کہا نوجوان شہزادی صاحبہ لو گے تو اپنی جان گنوا بیٹھو گے.

مرزا گوری بولے کیا کہا? ہم اور جان گنوا بیٹھیں گے. نادانوں تم ہمیں جانتے نہیں ہو. پہرے داروں نے کہا اگر یہ بات ہے تو شوق سے چلے جائیے. اور شہزادی صاحبہ کے محل کے دروازے پر رکھے ہوئے نقارے کو بجائیے. دونوں اپنے ہاتھی کو لیے ہوئے محل کے دروازے پر پہنچے. پھر ہمایوں نے نیچے اتر کر چوب picked up اور نکارہ کو زور زور سے بجایا. اس کی آواز سن کر ساتھ کنیزیں دوڑتی ہوئی آئیں.

اور ادب سے سلام کر کے کہنے لگی. چلیے حضور.

شہزادی صاحب انتظار فرما رہی ہیں.

کنیزوں کو دیکھ کر مرزا انگوری بھی نیچے اتر آئے. اور وزیراعظم ہمایوں کے ہمراہ شہزادی مہر کے پاس گئے.

انہوں نے دیکھا کہ وہ سنگ مرمر کے بت سے کہیں زیادہ حسین و خوبصورت ہے. سرخ و سفید چہرہ بڑی بڑی سیاہ نرگسی آنکھیں سطوا ناک پتلے پتلے گلابی ہونٹ لمبے لمبے سیاہ بال.

شہزادی مہرالنساء نے اپنی پیاری اور سریلی آواز میں کہا. کیا آپ لوگ دیکھنے آئے ہیں یا مجھ سے بیاہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.

ہمایوں نے کہا بیاہ کرنے کے خیال سے حاضر ہوا ہوں.

شہزادی کہنے لگی میرے پانچ سوال ہیں. اگر آپ نے ان پانچوں سوالوں کے صحیح جواب دے دیے تو میں آپ سے بیاہ کر لوں گی.

لیکن اگر آپ نے یہ ایک سوال کا بھی جواب نہ دیا تو آپ کی گردن کٹوا کر درخت پر لٹکوا دوں گی. وہ دیکھیے سامنے درخت پر دونوں نے گردن اٹھا کر دیکھا تو ایک اونچے درخت پر بے شمار سر لٹک رہے تھے.

مرزا انگوری بولے اماں ہمایوں کیا دیکھ رہے ہو? تمہارا سر بھی ان میں ہی نظر آئے گا.

ہمایوں نے کہا خاموش رہو. پھر شہزادی نے کہا. اور جو شخص دو تین سوالوں کے جواب صحیح اور باقی کے جواب غلط دیتا ہے. تو میں اسے جادو کے عمل سے جانور بنا دیتی ہوں. وہ دیکھو. سامنے وہ طوطا, مینا, بلبل, ہدود, گواہ, الو, عقاب, گد اور ادھر دیکھو. یہ گدھا, کتا, نیل, گائے, ہرن, گیدڑ, بھیڑیا, سارس, لومڑی اور چیتا یہ سب اصل میں انسان ہیں. لیکن جواب نہ دینے کی وجہ سے جانور بنے ہوئے ہیں. اب فرمائیے کیا ارادہ ہے آپ کا? ہمایوں وزیراعظم نے جواب دیا.

میں آپ کے پانچوں سوالوں کے جواب ضرور دوں گا.

شہزادی کہنے لگی شاباش. پھر بولی آئیے پہلے ناشتہ کر لیجیے.

مرزا انگوری نے کہا, نہیں شہزادی صاحبہ! یہ ہرگز نہیں ہوگا. ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے موقع پر بھی ایسی چیز کھلا دی جاتی ہے. کہ انسان اپنی کھو بیٹھتا ہے. لہذا پہلے اپنے سوالوں کا جواب لے لیجیے.

شہزادی مرزا انگوری کی بات پر قہقہ مار کر ہنس پڑی. پھر کہنے لگی بہت بہتر ہے. چلیے سامنے بارہ دری میں بیٹھ کر میرے سوالوں کے جواب دیجیے. یہ کہہ کر اس نے تالی بجائی. اسی وقت بہت سی کنیزیں حاضر ہو گئیں.

شہزادی نے ان سے کہا. سامنے بارہ دری میں ہمارے بیٹھنے کا بندوبست کرو.

کنیزوں نے فورا ایک قالین فرش پر بچھا دیے. اور ایک سفید مسند پر گاؤں تکیے رکھ دیے. پھر شہزادی سنت پر بیٹھ گئی اور ہمایوں مرزا انگوری کے ساتھ نیچے قلین پر بیٹھ گیا اور کنیزیں چاروں طرف کھڑی ہو کر مور چھل سے ہوا کرنے لگی شہزادی مہر النساء نے کہا میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ایک درخت ایسا ہے جو ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے اس کے پتے ایک طرف کے کالے اور دوسری طرف کے سفید ہیں وہ درخت سال بھر میں ایک مرتبہ مر جاتا ہے مگر فورا ہی زندہ ہو جاتا ہے بتاؤ وہ درخت کون ہے مرزا انگوری نے ہمایوں کے کان کے پاس منہ لے جا کر کہا وہ درخت گدھا ہو سکتا ہے چونکہ اس کے پیٹھ گہرے رنگ کی ہوتی ہے اور نیچے سے پیٹ سفید ہوتا ہے ہمایون نے تیوری چڑھاتے ہوئے آہستہ سے کہا کیا نشہ میں ہو مرزا انگوری کہیں گدھا ایک سال کے بعد مرتا ہے اور پھر فورا ہی زندہ بھی ہو جاتا ہے مرزا انگوری کہنے لگے جس وقت ایک گدھا مرتا ہوگا اس وقت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں ایک گدھا پیدا بھی تو ضرور ہوتا ہوگا شہزادی نساء نے دونوں کو باتیں کرتے دیکھا تو اس نے کہا مرزا انگوری آپ ان کو مشورہ نہ دیں ورنہ آپ کو گیدڑ بنا کر کسی پنجرے میں بند کر دوں گی مرزا انگوری اپنی ٹوپی کو سیدھا کرتے ہوئے بولے ہم اور گیدڑ توبہ توبہ جناب ہم شیر ببر سے کم نہیں ہیں اس کی طرح ہم دوسرے جانوروں پر بہادری سے حملہ کرتے ہیں لہذا میں گیدڑ بنا کر ہماری عزت خاک میں نہ ملائیے شہزادی ان کا دلچسپ جواب سن کر مسکرانے لگی پھر ہمایوں نے شہزادی صاحبہ اپنے سوال کا جواب سنیے اس درخت کا نام ہے سال جس کے ایک طرف کے پتے سفید ہیں وہ دن ہیں اور کالے پتے رات ہیں درخت کا مر جانا سال کا ختم ہونا ہے اور مر کر فورا زندہ ہو جانا نئے سال کا پہلا دن ہے شہزادی یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئی پھر کہنے لگی اب دوسرا سوال سنو ایک سمندر ہے جو ساری دنیا کو یہاں تک کہ ہمالیہ پہاڑ کو بھی ڈبو دیتا ہے لیکن ایک دیو ہے جس کا نہ منہ ہے ہاتھ اور نہ پیر ہیں.

وہ اسے آن کے آن میں پی جاتا ہے. بتاؤ تو وہ دریا کیا ہے? اور وہ دیو کون ہے? مرزا انگوری اپنی چھوٹی سی نوکدار داڑھی کو انگلیوں سے کریدتے ہوئے کہنے لگے.

اب خیر نہیں وزیر صاحب. اب ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ پنجرہ تلاش کر لو.

شہزادی بولی. آپ خاموش رہے. مرزا صاحب.

ہمایوں نے تھوڑی دیر غور کیا پھر مسکرا کر بولا. وہ سمندر اوس یعنی شبنم ہے. صبح کے وقت سارے دنیا اس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے. اور اسے پینے والا دیو وہ سورج ہے. جس کا نہ منہ ہے نہ ہاتھ اور نہ پیر ہے. لیکن پھر بھی وہ شبنم پی جاتا ہے. شہزادی بولی شاباش. تیسرا سوال یہ ہے کہ میری تین بہنیں ہیں. اور انیس کنیزیں ہیں.

میں چاہتی ہوں کہ آدھی کنیزیں بڑی بہن شہناز کو مل جائیں. باقی آدھے حصے میں سے نصف کنیزیں منجلی بہن ممتاز کو مل جائیں. مگر یہ خیال رہے کہ کسی کنیز کے ٹکڑے بھی نہ ہوں. اور کسی بہن کو کم زیادہ بھی نہ ملے. مرزا انگوری بولے سوال بالکل غلط ہے. انیس کا آدھا ساڑھے نو. لہذا ایک کنیز کو تو ضرور کاٹنا پڑے گا.

اور اگر نہیں کاٹا گیا تو سوال صحیح نہیں ہو سکتا.

شہزادی نے کہا کٹی ہوئی کنیز کو بڑی بہن لے کر کیا کرے گی? یہ بھی تو سوچ لو. مرزا انگوری نے افیم کی ایک گولی دانتوں میں دباتے ہوئے کہا. حساب کے مطابق جو ہو گا کرنا پڑے گا. ہمایوں بولا خاموش رہو مرزا صاحب میں نے اس سوال کو حل کر لیا ہے. سنیے شہزاد اپنی انیس کنیزوں میں ایک میری کنیز شامل کر لیجیے.

اب آپ کے پاس ہیں کنیزیں بیس.

ان کی نصف دس کنیزیں. تو بڑی بہن شہناز کو دس دے دیجیے. باقی آدھا حصہ میں سے نصف یعنی پانچ منجلی بہن ممتاز کو دے دیجیے.

لیکن وزیراعظم ہمایوں جو بہت ہی ہوشیار اور قابل شخص تھا.

مسکراتے ہوئے بولا سنیے شہزادی صاحبہ موم بتی وہ رانی ہے جسے آگ لگتے ہی پانی برسنے لگتا ہے. اور اونچا سا پہاڑ آسمان ہے. اور کلیاں ستارے ہیں. ان کلیوں کو مالی توڑ نہ سکے. اور مالا گوندھ نہ سکے.

شہزادی مہرالنساء اپنے چوتھے سوال کا صحیح جواب سنتے ہی پسینہ میں شرابور ہوگئی اور دل ہی دل میں کہنے لگی. اب کیا ہوگا? صرف ایک ہی باقی رہ گیا ہے. اگر اس نے اس کا بھی جواب دے دیا تو مجھے اس سے بیاہ کرنا پڑے گا. اس کا مطلب ہے کہ میری آزادی مجھ سے چھن جائے گی. اب مجھے ایسا سوال کرنا چاہیے. کہ یہ قیامت تک اس کا جواب نہ دے سکے. یہ سوچ کر اس نے کہا میرا پانچواں اور آخری سوال یہ ہے. کوا کانہ تیلی لولا بنیا بہرہ. اس سے پہلے اور بعد میں کیا ہے? اور اس کا قصہ کیا ہے? وزیراعظم ہمایون اس عجیب سوال کو سن کر حیران رہ گیا اور سوچنے لگا.

یہ تو ایسی بات ہے.

کہ اس پر سوچنا سمجھنا بالکل بے کار ہے. پھر اس کی نگاہ ان پنجروں کی طرف اٹھ گئی. جن میں سینکڑوں جانور بند تھے. اور وہ دل میں کہنے لگا. کچھ دیر کے بعد میں بھی جانور بنا دیا جاؤں گا. اور اسے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آنے لگا.

مرزا انگوری بھی کسی گہری سوچ میں تھے کہ اچانک انہیں کچھ خیال آیا. اور انہوں نے ہمایوں کے کان میں ایک بات کہی. جسے سن کر وہ مسکرا دیا. اور شہزادی مہرالنساء سے کہنے لگا. آپ کے سوال کا عرض ہے سنیے. ایک تھی چوہیا اسے جو شوق ہوا تو اس نے کان چھیدنے والے کو بلا کر اپنی ناک چھدوا لی. ناک میں خون لگا تو وہ بھاگی بھاگی ندی پہ گئی.

ندی پہ جو ناک دھونے بیٹھی تو ناک میں سے اتنا خون نکلا. اتنا خون نکلا کہ ندی کا پانی سرخ ہو گیا.

ندی پر آیا ایک بیل پانی پینے. وہ ندی سے کہنے لگا کہ بی ندی بی ندی. میں ابھی یہاں سے پانی پی کر گیا تھا. تب تو تمہارا پانی سفید تھا. اب لال ہو گیا. ندی نے کہا کچھ نہ پوچھ. بیل نے کہا نہیں کچھ تو ضرور بتاؤ. ندی کہنے لگی بیچ چوہیا کے چھدی ناک. ندی کا پانی لال ہوا. بیل کے سینگ جھڑے.

تیرے سب پتے موجود تھے. ایسے ہی جلدی تیرے پتے کیا ہوئے? اس نے کہا کچھ نہ پوچھ. اس نے کہا نہیں کچھ تو ضرور بتا. کہا بیچ چغیا کی چھدی ناک. ندی کا پانی لال ہوا. بیل کے سینگ جھڑ بڑھ کے پتے جھڑے. کوا کانہ کوا بیچارہ جو تھا سو کانا ہو گیا. کوا گیا تیلی کے پاس. تیلی نے کہا کوے کوے ابھی تو تو آیا تھا تیری دونوں آنکھیں موجود تھیں.

اب ایسا کیا ہوا کہ تیری آنکھ جاتی رہی. کوے نے کہا کچھ نہ پوچھ. اس نے کہا نہیں کچھ تو ضرور بتا. کہا بیچ چوہیا کی چھدی ناک. ندی کا پانی لال ہوا اور bell کے سینگ جھڑ. بڑھ کے پتے جھڑ. کوا کانا تیلی لولا. تیلی بیچارہ لولا ہو گیا. تیلی گیا بنیے کے پاس. بنیے نے کہا تیلی تیلی ابھی تو تو میرے پاس تیل لے کر آیا تھا.

تیری دونوں ٹانگیں موجود تھیں. اب ایسی جلدی تو لولا کیونکر ہو گیا. تیلی نے کہا کچھ نہ پوچھ. اس نے کہا نہیں کچھ تو ضرور بتا. اس نے کہا کہ چوہیا کی چھدی ناک. ندی کا پانی لال ہوا. بیل کے سینگ جھڑ, بڑھ کے پت جھڑ. کوا کانا, تیلی لولا, بنیا بہرا. بنیا بیچارہ بہرا ہو گیا. اس کے ہاں ایک امیر کی لونڈی سودا لینے آئی.

وہ کہنے لگی. کہ بنیے, بنیے دال دے. بنیا بولا گڑ دوں? اس نے کہا نہیں دال دے. کہنے لگا چاول دوں? لونڈی چلا کے بولی کہ بنیے بنیے ابھی تو میں تیرے ہاں چینی لینے آئی تھی. تب تو خاصہ سنتا تھا. اب ایسے ہی جلدی کیا ہوا کہ تو بہرا کیونکر ہو گیا.

بنیے نے کہا کچھ نہ پوچھ.

لونڈی بولی کچھ تو ضرور بتا.

بیل کے سینگ جھڑ, بڑھ کے پت جھڑ, کوا کانا, تیلی لولا, بنیا بہرا, لونڈی ہنسی, بیوی کودنی, بیوی کودنے لگ گئیں. شہزادی مہرو نے اپنے سوال کا لمبا چوڑا لیکن بالکل صحیح جواب سنتے ہی وزیراعظم ہمایوں کو نگاہ جما کر اس طرح دیکھنے لگی جیسے وہ چلتی پھرتی شہزادی نہیں بلکہ سنگ مرمر کی بے جان موڑتی ہے. اس کے ساتھ ساتھ کنیزے بھی حیران تھی.

ہمایوں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا فرمائیے شہزادی صاحبہ اب کیا حکم ہے? شہزادی دبی زبان میں بولی. اب میں آپ کی کنیز ہوں. چونکہ آپ نے میرے پانچوں سوالوں کے جواب دے دیے اور مجھے جیت لیا ہے. آپ کو مبارک ہو.

کہ ہزاروں آدمیوں میں صرف ایک آپ ہی نے مجھے مات دی ہے. ہمایوں نے کہا مگر شہزادی صاحبہ میں نے آپ کو اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بادشاہ الماس کے لیے حاصل کیا ہے. اب آپ ان کی ملکہ بن کر رہیں گی.

شہزادی بولی ہرگز نہیں. آپ نے میرے سوالوں کے جواب دیے ہیں. اس لیے آپ ہی مجھ سے بیاہ کر سکتے ہیں. اگر بادشاہ میرے سوالوں کے جواب دیتا تو وہ بیاہ کرتا. پھر کسی دوسرے کو حق نہ ہوتا. ہمایوں نے کہا شاید آپ کو معلوم نہیں. کہ حاتم بن طے جو حاتم طائی کے نام سے مشہور ہے. اس نے حسن کے سات سوال حل کیے تھے. لیکن اس سے شادی خوارزم کے شہزادہ منیر شامی نے کی تھی.

حاتم نے نہیں.

شہزادی بولی آپ بجا فرماتے ہیں. لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے. حاتم طائی نے حسن بانو سے پہلے اجازت حاصل کر لی تھی. کہ اگر میں ساتوں سوال حل کر دوں تو کیا آپ منیر شامی سے شادی کر لیں گی? حسن بانو نے اقرار کر لیا. تو حاتم طائی نے اس کے سوال حل کیے تھے. مگر آپ نے تو مجھ سے اجازت حاصل نہیں کی تھی.

ہمایوں نے کہا مگر میں بادشاہ سے وعدہ کر کے آیا تھا. کہ آپ کے لیے مہرالنساء کو لے کر آؤں گا. اس لیے میں شادی کر کے اپنے قول سے نہیں پھر سکتا.

مہرالنساء بولی مجھے ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں.

مرزا انگوری جو خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہے تھے. کہنے لگے شہزادی صاحبہ انہیں تو یوں بھی آپ سے دور ہی رہنا چاہیے. چونکہ آپ کا دل انسان کی ہمدردی سے خالی ہے. سینکڑوں کو آپ نے قتل کر دیا ہے. اور سینکڑوں کو انسان سے جانور بنا کر پنجروں میں بند کر دیا.

مہرالنساء نے کہا اگر تمہارا یہ خیال ہے تو میں ان سب کو دوبارہ انسان بنا کر آزاد کر دیتی ہوں. ہمایوں بولا اگر آپ نے انہیں آزاد کر دیا تو میں آپ کا عمر بھر احسان مانوں گا.

شہزادی مہرالنساء اسی وقت مسکراتی ہوئی اٹھی اور جادو کی چھڑی ہوا میں گھماتی ہوئی پنجروں کے پاس گئی. پھر منتر پڑھ پڑھ کر باری باری ہر جانور کو چھڑی لگاتی ہوئی چلی گئی. جس جانور کے چھڑی لگتی وہ انسان بن جاتا. اس طرح سارے جانور انسان بن گئے. پھر ہمایوں نے شہزادی سے کہہ کر سب کو آزاد کرا دیا. جب تمام لوگ چلے گئے تو شہزادی نے کہا. اب آپ بیاہ کر کے لیے تیار ہو جائیے. مرزا انگوری بولے بانو میں چاہتا ہوں کہ جادو کی اس چھڑی کو ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیا جائے.

شہزادی نے کہا میں اسے زمین میں دبا دیتی ہوں. ہمایوں بولا جی نہیں آپ یہ چھڑی مرزا انگوری کو دے دیجیے. یہ اس چھڑی کو پتھر سے باندھ کر دریا میں ڈبو دیں گے. پھر یہ کسی کے ہاتھ نہ لگ سکے گی.

شہزادی نے جادو کی چھڑی مرزا انگوری کے حوالے کر دی اور کہنے لگی. اب آپ کو کیا انکار ہے.

ہمایوں نے کہا اگر میں نے آپ سے بیاہ کر لیا تو بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا? نہیں نہیں.

بیان نہیں کروں گا. ایک کنیز نے کہا گستاخی اور بے ادبی کی معافی چاہتے ہوئے یہ عرض کرتی ہوں کہ آپ چند روز یہاں مہمان رہ کر غور فرما لیں.

ہمایوں بولا جی نہیں ہم آپ کو ساتھ لے کر فورا واپس جانا چاہتے ہیں. چونکہ بادشاہ سلامت انتظار کر رہے ہوں گے. مگر شہزادی نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں مجبور ہو کر مہمان ٹھہرنا پڑا. ادھر الماس نے جب دیکھا کہ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ہمایوں اور مرزا انگوری واپس نہیں آئے. تو وہ اپنی فوج لے کر ریاست مہر آباد کے جانب روانہ ہوا اور تیسرے روز ریاست کے دروازے پر پہنچ گیا.

شہزادی کو جب معلوم ہوا کہ اس کی ریاست پر حملہ کرنے کے لیے دشمن دروازے پر پہنچ گیا ہے. تو اس نے اپنی فوج کو مقابلہ کے لیے روانہ کر دیا. دونوں فوجوں میں جنگ شروع ہو گئی. ہمایوں کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ جنگ ہو رہی ہے تو وہ دوڑتا ہوا قلعہ کے برج میں گیا. اور دیکھا کہ دشمن کون ہے? لیکن الماس کو دیکھتے ہی اس نے شہزادی سے کہا. اس جنگ کو روک دو.

چونکہ میں بادشاہ کو سمجھانا چاہتا ہوں.

شہزادی نے ہمایوں کو ساتھ لے کر سفید جھنڈا بلند کیا. اسے دیکھ کر دونوں طرف کے سپاہیوں نے ہاتھ روک لیے. پھر ہمایون نیچے اتر کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا. جہاں پناہ میں نے شہزادی کے پانچوں سوال حل کر دیے ہیں. لیکن وہ کہتی ہے کہ جس نے میرے سوال حل کیے ہیں. وہی مجھ سے شادی کر سکتا ہے.

دوسرے کسی آدمی کو حق نہیں ہے.

الماس آنکھیں نکالتے ہوئے کہا نمک حرام دغواس یہ مکاری شہزادی کو دیکھ کر نیت بدل گئی ہمایوں بولا نہیں جھانپنا یہاں کی ایک ایک کنیز اس بات کی گواہ ہے کہ میں شادی کرنے سے انکار کر چکا ہوں اور آپ کے لیے شہزادی سے لڑ رہا ہوں مرزا انگوری بھی بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے اور ہمایوں کی طرف سے بولنے لگے لیکن الماس نے ان دونوں میں سے کسی کی بات پر یقین نہیں کیا اور کہنے لگا میرے ساتھ واپس چلو میں جنگ کر کے اس کو تباہ کر دوں گا.

اور شہزادی کا غرور خاک میں ملا کر اسے اپنی غلامی میں لے لوں گا. اور یہ کہہ کر اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور انہوں نے ہمایوں کو گرفتار کر لیا. پھر الماس اپنی فوج کے ساتھ واپس چلا آیا. شہزادی مہرالنساء یہ حال دیکھ کر اداس ہو گئی. چونکہ ہمایوں سے اس کا بیاہ نہ ہو سکا. اور جادو کی چھڑی بھی ہاتھ سے جاتی رہی. وہ بہت دیر تک بیٹھی کچھ سوچتی رہی. آخر اس نے دو کنیزوں کو بلا کر حکم دیا.

کہ تم بھی اس الماس کے محل میں جاؤ اور ہمایوں کی خبر لے کر بہت جلد واپس چلی آؤ اگر ہمایوں کو یہاں آنے کا ارادہ نہ ہو تو کسی طرح جادو کی چھڑی حاصل کر لینا کنیزیں آداب بجا لا کر روانہ ہو گئیں اور راستہ کی مصیبتیں برداشت کرتی ہوئی الماس کے شہر میں جا پہنچیں دونوں نے گوالن کا بھیس بدل لیا اور مٹکوں میں دہی لے کر شاہی محل کی طرف چل پڑیں محل کے صدر دروازے پر کھڑے ہوئے دربانوں نے انہیں نہیں روکا اور وہ سیدھی محل چلی گئی.

کنیزوں نے باتیں بنا کر یہ معلوم کر لیا. کہ بادشاہ الماس نے ہمایوں کو غلاموں کے کپڑے پہنوا کر جنگل میں چھوڑ دیا ہے. اور مرزا انگوری کو شہر بدر کر دیا ہے.

کنیزے راز معلوم کرنے کے بعد واپس مہر آباد چلی گئی. اور انہوں نے سارا حال شہزادی مہرالنساء کو کہہ سنایا.

شہزادی بہت پریشان ہوئی. اور وہ سوچنے لگی. ہمایوں جیسے ہوشیار اور عقلمند نوجوان ہی کی مجھے تلاش تھی. ایسے آدمی کے ساتھ زندگی کے دن اچھی طرح بسر ہوتے ہیں. لیکن بادشاہ الماس جیسے کے ساتھ ایک دن بھی کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے. پھر اسے خیال آیا کہ جادو کی چھڑی چھن جانے کے بعد میری طاقت بہت زیادہ کم ہو گئی ہے.

کاش یہ چھڑی میرے پاس ہی رہتی.

اب اگر الماس نے میری ریاست پر حملہ کر دیا. تو میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکوں گی. اور وہ مجھے زبردستی یہاں سے لے جائے گا. اور میری مرضی کے خلاف مجھ سے بیاہ رچا بیٹھے گا. اس خیال کے آتے ہی وہ کانپ اٹھی. اور دل ہی دل میں لگی. میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی. میں آج ہی روانہ ہوتی ہوں اور جنگلوں, بیابانوں اور صحراؤں میں اسے تلاش کرتی ہوں.

مرزا انگوری کو شہر بدر کر دیا گیا تھا. وہ بیچارے دوسرے شہروں میں مارے مارے پھر رہے تھے. جیب خالی تھی. افیم کے لیے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی. کوئی کام بھی نہیں جانتے تھے. جو دو چار پیسے کما لیتے. آخر انہوں نے سوچا کہ بازاروں میں مجمع لگا کر جادو کی چھڑی سے لوگوں کو انسان سے جانور اور جانور سے بنانے کا کمال دکھایا کروں گا. اس طرح صبح سے شام تک دس بیس روپے کما لیا کروں گا.

یہ سوچ کر انہوں نے ایک بڑے بازار میں کھڑے ہو کر مجمع لگایا اور لوگوں سے کہا بھائیوں میں جادوگر نہیں ہوں. لیکن پھر بھی انسان کو جانور بنا سکتا ہوں. اور اس جانور کو دوبارہ انسان کے روپ میں واپس لا سکتا ہوں. اگر یقین نہ ہو تو کوئی صاحب میرے سامنے آ کر کھڑے ہو جائیں. مجمع میں سے ایک شخص آگے آیا اور کہنے لگا. اگر آپ نے مجھے اونٹ بنا دیا تو میں آپ کو پانچ روپے انعام دوں گا.

مرزا خوش ہوئے. اور انہوں نے چھڑی گھما کر کہا اے آدمی تو اونٹ بن جا. وہ آدمی اونٹ بن گیا. یہ کمال دیکھ کر مجمع نے زور زور سے تالیاں بجائی. پھر ایک بہت موٹا آدمی آگے آیا اور کہنے لگا. مجھے ہاتھی بنا کر دکھاؤ.

مرزا جی نے چھڑی گھما کر اسے ہاتھی بنا دیا. اسی وقت ادھر سے بادشاہ کی سواری گزری. اس نے پوچھا یہ کیا تماشا ہے. لوگوں نے کہا ایک شخص انسانوں کو جانور بنا رہا ہے. یہ سن کر بادشاہ کو بھی تماشا دیکھنے کا شوق ہوا. وہ نیچے اتر کر بولا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب تک اس نے جن لوگوں کو جانور بنایا ہے وہ اسی کے آدمی ہیں. لہذا میرے وزیر کو شیر بنا کر دکھاؤ تو مجھے یقین آئے کہ واقعی یہ شخص سچا ہے.

مرزا جی کے لیے کیا مشکل تھا. انہوں نے چھڑی گھما کر وزیر کو شیر بنا دیا.

بادشاہ نے فورا ہی گلے سے موتیوں کا ایک ہار اتار کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہا. اب ان لوگوں کو دوبارہ انسان بناؤ. مرزا جی نے چھڑی گھما کر کہا واپس انسان بن جاؤ. لیکن اونٹ اونٹ ہی رہا. ہاتھی ہاتھی ہی رہا.

شیر شیر ہی رہا. مرزا جی نے دوبارہ چھڑی گھما کر کہا لیکن کوئی اثر نہ ہوا. اب تو مرزا جی بہت سٹ پٹائے اور بار بار چھڑی گھما گھما کر شور مچانے لگے. واپس انسان بن جاؤ لیکن بیٹا کچھ نہ ہوا. بادشاہ کو یہ حال دیکھ کر بہت غصہ آیا. اور اس نے مرزا جی کی گرفتاری کا حکم دے دیا.

سپاہیوں نے مرزا انگوری کو گرفتار کر لیا. اور جانوروں کو رسیوں سے باندھ لیا اور قلعہ کی طرف لے گئے. وہاں جا کر بادشاہ کو معلوم ہوا کہ جادو کی چھڑی اصل میں مہر آباد کی شہزادی مہر النساء کی ہے. اور وہی اس کا راز جانتی ہے.

بادشاہ نے اسی وقت وزیراعظم کو ریاست مہر آباد روانہ کیا. تاکہ وہ شہزادی سے درخواست کر لے کہ وہ جانوروں کو انسان بنا دے. لیکن جب وزیراعظم ریاست میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ شہزادی ریاست چھوڑ کر کہیں چلی گئی ہے. اور اس کے متعلق کسی کو علم نہیں ہے. وزیراعظم مایوس ہو کر واپس روانہ ہوا اور جا کر بادشاہ سے عرض کی جا پناہ شہزادی مہر النساء لاپتہ ہے. اب بہتر یہ ہے کہ سارے ملک میں اعلان کر دیا جائے. کہ جادوگر یہاں آ کر اس چھڑی کا راز معلوم کرے. اور جانوروں کو دوبارہ انسان بنائے. بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی.

اور اس نے ہی اعلان کر دیا.

گھنشام جادوگر اعلان کو سن کر اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوا اور بادشاہ کے شہر کی جانب روانہ ہوا. چونکہ یہ چھڑی اسی کی دی ہوئی تھی. اور اب وہ اس چھڑی کو واپس حاصل کرنا چاہتا ہے. دوسرے دن بادشاہ کے پاس پہنچ گیا اور چھڑی ہاتھ میں لے کر جانوروں کے سامنے کھڑا ہوا. اور الٹا گھما کر بولا واپس انسان بن جاؤ اور وہ تینوں انسان بن گئے. مرزا جی بھی یہ تماشا دیکھ رہے تھے. اب وہ سمجھ گئے کہ الٹا گھمانے سے جانور انسان بنتا ہے.

بادشاہ نے جادو سے کہا مانگو کیا مانگتے ہو? جادوگر بولا عالم پناہ مجھے چھڑی بخش دیجیے.

چھڑی کا نام سنتے ہی مرزا جی گھبرا گئے اور نہایت پھرتی سے جھپٹ کر جادوگر کے ہاتھ سے چھڑی چھین لی اور سر پر پاؤں رکھ کر دروازے کی طرف بھاگے.

سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا. لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آئے. قلعہ سے باہر نکلے تو پہرے داروں نے ان کا پیچھا کیا. یہ حال دیکھ کر مرزا جی نے چھڑی گھمائی اور چلا کر کہا جانور بن جاؤ. سارے پہرے دار جانور بن گئے. اور مرزا جی گئے. جادوگر گنشام بھی ان کے پیچھے پیچھے بھاگا. آخر وہ دونوں ایک جنگل میں پہنچ گئے. اور کہنے لگے دیکھ بھائی جادوگر ویسے تو میں تجھے چھڑی نہیں دوں گا ہاں اگر تم یہ بتا دیں کہ وزیراعظم ہمایوں اور شہزادی مہر النساء اس وقت کہاں ہیں? اور تو مجھے ان کے پاس پہنچا دے تو میں یہ چھڑی تیرے حوالے کر دوں گا.

جادوگر گھنشام نے جیب سے ایک آئینہ نکالا اور کچھ پڑھ کر اس میں دیکھا.

تھوڑی دیر تک آئینہ دیکھنے کے بعد پھر کچھ پڑھا اور دوبارہ آئینے میں دیکھا. اس کے بعد کہنے لگا سنو مرزا انگوری ہمایوں اور شہزادی دونوں ایک ہی جنگل میں بھٹک رہے ہیں. اور وہ جنگل یہاں سے دو سو ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے. اگر وہاں چلنا ہے تو میرے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو جاؤ.

مرزا چھڑی کو اپنے سینے سے باندھا. اور جادوگر کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ گئے اور مشرق کی طرف روانہ ہو گئے. پانچ دن کا سفر طے کرنے کے بعد چھٹے روز وہ دونوں جنگل میں پہنچ گئے. اور آئینے کی مدد سے انہوں نے شہزادی کو تلاش کر لیا. غریب کی بھوک اور پیاس کے مارے بری حالت تھی. کپڑے پھٹ گئے تھے. بال گرد میں اٹھ گئے تھے. مرزا انگوری کو پہچان کر شہزادی نے کہا. تمہارا وزیر کہاں ہے? مرزا جی بولے. گھبرائیے نہیں. وہ اسی جنگل میں ہیں. انہیں ہم تینوں مل تلاش کر لیں گے.

ہم دونوں اسی غرض سے یہاں آئے ہیں.

جادوگر نے آئینہ کی مدد سے ہمایوں کو بھی تلاش کر لیا. اس وقت اس کی بری حالت تھی. داڑھی کے بال بڑھے ہوئے تھے. اور جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے. انہیں دیکھ کر شہزادی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے. مرزا انگوری بولے. دوست یہ کیا ہے. کہنے لگا کچھ نہ پوچھو. کئی بار درندوں سے بچا ہوں. اگر زندگی نہ ہوتی تو ان کے منہ کا نوالہ بن گیا ہوتا.

مرزا انگوری نے مسکراتے ہوئے کہا. کاش تمہارے پاس تھوڑی افیم ہوتی اور تم جانوروں کو کھلا دیتے. بس وہ تمہارے غلام ہو جاتے.

ہمایوں نے شہزادی سے کہا. آپ مجھ بدقسمت کے مارے کی طرح اس جنگل میں کہاں بھٹک رہی ہیں? شہزادی نے طبعی زبان میں جواب دیا. آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور بادشاہ الماس میرا دشمن ہو گیا. خود کو اس کے ہاتھ سے بچانے اور آپ کو حاصل کرنے کے خیال سے ریاست کو چھوڑ کر یہاں آئی ہوں. ہمایوں بولا الماس نے اگرچہ میرے ساتھ نا انصافی کی ہے. لیکن پھر بھی میں اپنے سے پھرنا نہیں چاہتا. میں نے تمہارے سوال صرف اس کے لیے حل کیے تھے. اس لیے میں تم کو اسی کے لیے حاصل کر سکتا ہوں.

اپنے لیے نہیں.

مرزا انگوری بولے. کیا بات کر رہے ہو ہمایوں? ایسے رزیل بادشاہ کے لیے جس نے تمہاری وفاداری کا تمہیں یہ انعام دیا. کہ غلاموں کا لباس پہنا کر جنگل میں چھوڑ دیا. اور ہمیں شہر بدر کر دیا. اپنی وفاداری دکھا رہے ہو. بڑے افسوس کی بات ہے. چلو شہزادی کا ہاتھ پکڑو اور مہر آباد کے تخت پر بیٹھ کر نہایت شان سے حکومت کرو.

گنشام بولا یہ غلام بھی آپ کے ساتھ ہے. بادشاہ الماس آپ لوگوں کو معمولی سی بھی تکلیف نہیں پہنچا سکے گا. اگر وہ مقابلے پر اتر آیا تو ساری عمر روئے گا.

ہمایون خاموش تھا.

شہزادی نے جادوگر گنشام کو پہچانتے ہوئے کہا. آپ ہی فیصلہ کیجیے. میرا اعلان یہ تھا کہ جو میرے پانچ سوال حل کرے گا. میں اس سے شادی کروں گی. انہوں نے سوال حل کر دیے. لیکن کہتے ہیں کہ میں بادشاہ کے لیے یہ کام کیا ہے اور تمہیں بادشاہ کے ساتھ زندگی گزارنا ہوگی. جادوگر بولا یہ بات بالکل ہے. تم نے اپنی جان کی بازی لگا کر سوال حل کیے ہیں. اس لیے تم ہی شہزادی سے بیاہ کر سکتے ہو.

بادشاہ ہرگز نہیں کر سکتا.

غرض ایسی ہی باتیں کرنے کے بعد سب نے ہمایوں کو مجبور کر لیا. اور وہ شہزادی مہرالنساء سے شادی کرنے کے لیے راضی ہو گیا. پھر سب خوشی خوشی ریاست مہر آباد گئے. وہاں رعایا اور شاہی ملازم اپنی شہزادی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے. انہوں نے گھر گھر چراغ جلائے اور بچوں میں مٹھائی تقسیم کی.

شہزادی نے ایک ہفتہ کے بعد ہمایوں سے شادی کر لی. اور دوسرے دن اسے پر بٹھا دیا.

بادشاہ الماس کو یہ خبر ملی تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا. اور اس نے وزیراعظم کو بلا کر ریاست پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا. لیکن اس نے کہا عالم پناہ دو باتیں ہیں. ایک تو یہ کہ شہزادی کی شادی ہو چکی ہے.

دوسرے ایک چھوٹی سی ریاست پر حملہ کرنا آپ جیسے بڑے کو زیب نہیں دیتا. بادشاہ نے کہا لیکن ہم اس بدمعاش ہمایوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے. تم فوج کا ایک دستہ تیار کرو. ہم اسے اپنے ہمراہ مہر آباد لے جائیں گے. وزیراعظم آداب بجان لا کر واپس چلا گیا.

اور فوج کے ایک مضبوط دستہ کو تیاری کا حکم دیا. دوسرے دن بادشاہ فوجی آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوا اور تین روز کا سفر طے کرنے کے بعد ہمایوں کے پاس جا پہنچا.

ہمایوں اسے عزت کے ساتھ بٹھانا چاہتا تھا. لیکن اس نے شہزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا. ہم یہاں بیٹھنے کے لیے نہیں آئے. ہمیں شہزادی چاہیے. اگر یہ نہیں مل سکتی تو ہم تمہارا سر کاٹ کر لے جائیں گے.

گھنشام جادوگر کہا شہزادی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دینے سے تو بہتر یہ ہے کہ ہم اسے جان سے مار دیں. لیکن اگر آپ اپنی نصف سلطنت ہمایوں کے نام کر دیں تو آپ کو شہزادی آسانی سے مل جائے گی. الماس بادشاہ نے اپنی نصف سلطنت دینے کا وعدہ کر لیا اور دوسرا ہی دن اس نے نصف حکومت ہمایوں کے نام کر دی.

نصف فوج اور نصف خزانہ بھی اس کے حوالے کر دیا. پھر گھنشام نے شہزادی کو بلا کر اس کے ساتھ کر دیا. الماس نے رخصت ہونے سے پہلے گھنشام کو بہت انعامہ اکرام دیا. الماس شہزادی کو ساتھ لے کر خوشی خوشی اپنے محل میں گیا اور کہنے لگا. ہم نے تمہیں ایک بہت بڑی قیمت ادا کر کے حاصل کیا ہے. شہزادی بولی آپ نے بہت مہنگا سودا کیا ہے.

الماس نے کہا. وہ کیسے? شہزادی بولی. آپ نے شہزادی کے بت کو پسند کیا تھا. اس لیے نصف سلطنت کے بدلے میں آپ نے پتھر کی شہزادی ہی کو حاصل کیا ہے. الماس گھبرا کر کہنے لگا. کیا کہہ رہی ہو تم? پھر اس نے دیکھا جسے وہ شہزادی مہرالنساء سمجھا تھا. حقیقت میں پتھر کی شہزادی تھی. جو جادو کے زور سے چل پھر بھی رہی تھی. اور بول بھی رہی تھی.

اصل شہزادی تو ہمایوں کے ساتھ تھی. الماس سر پکڑ کر رہ گیا.

چونکہ وہ اپنی نصف سلطنت نصف فوج اور نصف خزانہ دے کر اپنی طاقت کم کر چکا تھا. اب اس میں ہمایوں کے ملک پر حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی. وہ اپنی کم عقلی اور بلاوجہ کی ضد پر بہت پچھتایا.

گنشام جادوگر کی اس خدمت سے خوش ہو کر مرزا انگوری نے جادو کی چھڑی اسے انعام کے طور پر دے دی. اور ہمایوں نے اسے ایک جاگیر پھر یہ سب عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے لگے. اور بادشاہ الماس اپنی بدنصیبی پر آنسو بہاتا رہا. لیکن پتھر کی شہزادی کو ہمیشہ محل

Related Content

بادشاہ آہل اور ملکہ نینا کی کہانی

بادشاہ آہل اور ملکہ نینا کی کہانی

Leave a Comment